سعودی عدالت کا صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث 5 افراد کو سزائے موت کا حکم

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

jamal khashoggi
سعودی عدالت کاصحافی جمال خاشقجی کےقتل میںملوث 5افراد کوسزائے موت کاحکم

سعودی عرب کی عدالت نے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں5ملزمان کوسزائے موت اوردیگر 3افراد کو24سال قید کی سزاسنادی ۔

سعودی عرب کی عدالت کی جانب سے پانچ افراد کوصحافی جمال خاشقجی کے قتل کے جرم میں سزائے موت کا حکم دیا گیا ہے جبکہ دیگر تین افراد کو 24سال قید کی سزا سنادی گئی ہے،ریاض میں پریس کانفرنس کے دوران پبلک پراسیکیوٹر نے سزاؤں کا اعلان کیا۔

بیان میں کہا گیا کہ مقدمے کی تحقیقات میں 31افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے 21کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ 10افراد کو صرف سوال جواب کے لیے طلب کیا گیا تھا کیونکہ عدالت کے پاس انہیں حراست میں رکھنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

سعودی صحافی جمال خاشقجی سعودی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے تھے، انہیں 2 اکتوبر 2018کو استنبول میں واقع سعودی سفارت خانے میں قتل کیا گیا جس کا اعتراف سعودی حکام بھی کرچکے ہیں۔

سرکاری وکیل کاکہناتھا کہ یہ واقعہ بغیر اجازت کیے گئے ایک آپریشن کے نتیجے میں پیش آیا تھا اور اس قتل کے الزام میں 11 افراد کے خلاف ریاض میں مقدمہ چلایا گیا تھا لیکن ان افراد کے نام ظاہر نہیں کیے گئے تھے ۔

سعودی عرب میں کی جانے والی تحقیقات کے بعد 18 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جبکہ 5 سینئر حکام کونوکریوں سےبرخاست کیاگیا تھا۔ ان سرکاری اہلکاروں میں نائب انٹیلیجنس چیف احمد العسیری اور شہزادہ محمد بن سلمان کے معاون خصوصی سعود القحطانی بھی شامل تھے۔

سعودی عرب کی جانب سے صحافی جمال خاشقجی کی قونصل خانے میں موت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا گیا تھا کہ استنبول کے قونصل خانے میں اُن کا جھگڑا ہوا تھا جس کے بعد وہاں موجود افراد نے انھیں تشددکانشانہ بناکرقتل کردیا۔

امریکی تفتیشی ادارے سی آئی اے کا اپنی تحقیقات میں کہناتھا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نےسعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کا حکم دیا تھا تاہم سعودی حکومت نےاس الزام کوردکرتےہوئےکہاتھاکہ صحافی کے قتل میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ملوث نہیں ہیں۔

جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی سطح پربھی شدید رد عمل سامنے آیا تھا جس کےنتیجےمیں سعودی ولی عہد کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا تھا جس کے بعد سے انہوں نے امریکا اور یورپی ممالک کا کوئی دورہ نہیں کیاتھا۔

واضح رہے کہ سعودی صحافی جمال خاشقجی 2017 سے امریکا میں مقیم تھے،2 اکتوبر 2018 کووہ ترکی کے شہر استنبول میں قائم سعودی عرب کے قونصل خانے میں داخل ہوئے لیکن واپس نہیں آئے، بعد ازاں ان کے حوالے سے خدشہ ظاہر کیا گیا کہ انہیں قونصل خانے میں ہی قتل کر دیا گیا ہے۔

جمال خاشقجی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوتھا۔

17 اکتوبر کو جمال خاشقجی کی گمشدگی کے بارے میں نیا انکشاف سامنے آیا تھا اور کہا گیا تھا کہ انہیں تشدد کا نشانہ بنا کر زندہ ہی ٹکڑوں میں کاٹ دیا گیا،20 اکتوبر کو سعودی عرب نے باضابطہ طور پر یہ اعتراف کیا تھا کہ صحافی جمال خاشقجی کو استنبول میں قائم سعودی قونصل خانے کے اندر جھگڑے کے دوران قتل کردیا گیا۔

Related Posts