مشرق وسطیٰ کا جغرافیائی سیاسی منظرنامہ حالیہ اسرائیلی حملوں کے بعد تیزی سے غیر مستحکم ہو رہا ہے، جیسے حماس کے اہم رہنماؤں، بشمول اسماعیل ہنیہ، یحییٰ سنوار اور عباس ابراہیم شرف الدین کے قتل نے اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی مزید شدت اختیار کر گئی ہے، اور ایران کی جوہری تنصیبات اور تیل کے انفراسٹرکچر پر ممکنہ فوجی حملوں کے حوالے سے تیاریاں آخری مراحل میں نظر آرہی ہیں۔
یہ مضمون ان خطرناک حالات کے مضمرات پر روشنی ڈالے گا، جن میں ایران کے جوہری عزائم جو جوہری ہتھیار بنانے سے چند دنوں کی دوری پر ہے اور سعودی عرب کی جوہری پروگرام کی تکمیل کی خواہشات کو بھی ابھارنے کا سبب بنے گا اور اس کے وسیع تر جغرافیائی سیاسی نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔
اسرائیل طویل عرصے سے ایران کو اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی راہ میں سنگین خطرہ سمجھتا ہے، خاص طور پر اس کے جوہری پروگرام کی وجہ سے، جو کہ اب پایہ تکمیل تک پہنچا جاتا ہے اور بقول جان بولٹن کے ایرانی اپنے اگلے حملے میں اپنے جوہری ہتھیار تیار کرکے میزائلوں کے ساتھ لگا سکتے ہیں اور اسرائیل کو جان بولٹن نے مشورہ دیا ہے کہ اس سے پہلے کہ ایرانی اس راہ پر چلیں، ان کی جوہری تنصیبات کو تباہ کیا جائے، اور اب اسرائیل کا ماننا ہے کہ ایرانی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی راہ ہموار کر چکے ہیں۔ حالیہ واقعات نے اسرائیل کے اس عزم کو مزید تقویت دی ہے کہ وہ ایران اور اس کے علاقائی ساتھیوں سے لاحق خطرات کا فی الفور مقابلہ کرے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کی قیادت میں امریکی حکومت نے بھی اسرائیل کے کسی بھی قسم کے ایران پر، بشمول جوہری تنصیبات پر حملے کی صورت میں اسرائیل کی حمایت کا وعدہ کیا ہے، گو کہ ظاہری طور پر اسرائیل کو جوہری حملے سے اجتناب کا مشورہ دیا جارہا ہے۔
ایران کی جوہری تنصیبات پر اسرائیلی فوجی حملے کے سنگین نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ ایران کی جانب سے پورے مشرقِ وسطیٰ میں اور اپنی پراکسیز کو استعمال کرتے ہوئے اور اسرائیل کی سویلین آبادی پر براہِ راست حملے اور سخت جوابی کارروائی کا امکان ہے، جس میں اسرائیل پر میزائل حملے، خطے میں امریکی فوجی اڈوں پر حملے، یا حزب اللہ جیسے گروہوں کی حمایت میں اضافہ شامل ہو سکتا ہے۔ یہ صورتحال ایک بڑے علاقائی تنازعے کا سبب بن سکتی ہے جس میں مختلف ریاستی اور غیر ریاستی عناصر شامل ہو سکتے ہیں، اور پورا خطہ مزید عدم استحکام کا شکار ہو سکتا ہے۔
ایسی صورت میں خطے کےدیگر ممالک سے بھی شدت پسندوں کی گوریلا کارروائی یا امریکا کے مفادات اور اسرائیل کے خلاف مجاہدین کا ابھار بڑھ سکتا ہے۔
ایران کے جوہری عزائم گزشتہ ایک دہائی سے مشرق وسطیٰ کی سیاست کا مرکزی مسئلہ رہے ہیں۔ عالمی معاہدوں کے باوجود، جیسے کہ مشترکہ جامع ایکشن پلان (JCPOA)، ایران اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتا رہا ہے، جس نے اس کے ہمسایہ ممالک اور مغربی طاقتوں میں تشویش پیدا کر دی ہے۔ اور اب ایران جو کہ خطے میں اپنے جوہری ہتھیار یا تو بنا چکا ہے یا پھر تکمیل کے قریب ہے، یہ خطے میں طاقت کے توازن کو تبدیل کرنے کا سبب بنتا جارہا ہے، جس سے دیگر ممالک، خاص طور پر سعودی عرب، کو اپنی دفاعی حکمت عملیوں پر دوبارہ غور کرنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کی صورت میں مشرق وسطیٰ میں ایک سکیورٹی بحران پیدا ہو سکتا ہے، جہاں پڑوسی ممالک اپنے دفاعی نظام کو مضبوط کرنے کی کوشش کریں گے جس میں اسرائیل اور امریکا کی منشاء بھی شامل ہو۔ اس سے ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو سکتی ہے، جس سے کشیدگیاں مزید بڑھ جائیں گی اور خطے میں تنازعات کے سفارتی حل کی رہی سہی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اگر ایران جوہری ہتھیاروں کی تکمیل اور استعمال کے قریب پہنچ جاتا ہے تو سعودی عرب بھی جوہری ہتھیار بنانے پر مجبور ہوجائے گا ارو امریکا گو کہ ظاہری طور پر اس کا مخالف ہے لیکن اپنی نظریں دوسری طرف کرسکتا ہے تاکہ سعودی عرب کی ایران سے مخاصمت جاری و ساری رہے جبکہ بہتر یہ ہے کہ ایران، سعودی عرب اور یو اے ای کی ہم آہنگی برقرار رہے۔
ایران کے جوہری عزائم کے تناظر میں سعودی عرب نے بھی اپنے جوہری پروگرام کے حوالے سے دلچسپی ظاہر کی ہے۔ سعودی عرب کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ٹیکنالوجی کو پرامن مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے، جیسے کہ توانائی کی پیداوار، لیکن اس کے پیچھے کی بنیادی وجوہات علاقائی سکیورٹی خدشات سے وابستہ ہیں۔ اگر ایران جوہری ہتھیار حاصل کر لیتا ہے تو سعودی عرب اپنی سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ایسے ہی اقدامات کرنے پر مجبور ہو سکتا ہے۔
پاکستان، جو کہ ایک جوہری طاقت ہے اور جس کے سعودی عرب کے ساتھ تاریخی تعلقات ہیں، اس حوالے سے پاکستان کے سعودی عرب کیلئے ایک اہم کردار ادا کرنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔ یہ صورتحال پاکستان کے آئی اے ای اے، دیگر ممالک، خاص طور پر امریکہ کے ساتھ تعلقات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے، کیونکہ امریکہ سعودی عرب کو جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی کو ایک اہم سکیورٹی مسئلہ سمجھ سکتا ہے، گو کہ عالمی منظر نامے کے تحت اسے نظر انداز بھی کیاجاسکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں جاری واقعات، خاص طور پر اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگیاں اور سعودی جوہری پروگرام کی ممکنہ ترقی، عالمی سطح پر اہم اثرات مرتب کر سکتے ہیں۔ اسرائیل اور ایران کے درمیان کسی بھی تنازعے کی صورت میں عالمی تیل کی منڈیوں میں خطرناک قسم کا خلل پڑ سکتا ہے، انسانی بحران پیدا ہو سکتے ہیں، اور خطے میں فرقہ وارانہ تقسیم مزید گہری ہو سکتی ہے۔ مزید برآں، بڑی طاقتوں، جیسے امریکہ اور روس کی مداخلت، سفارتی کوششوں کو پیچیدہ بنا سکتی ہے اور ایک مزید پولرائزڈ بین الاقوامی ماحول تشکیل دے سکتی ہے۔
اس کے علاوہ، مشرق وسطیٰ میں نئے جوہری طاقتوں کے ابھرنے سے علاقائی ریاستوں میں فوجی اخراجات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ہتھیاروں کے حصول میں بہت تیزی آسکتی ہے، جس سے وسائل کو سماجی و اقتصادی ترقی اور استحکام کی کوششوں سے دور کیا جا سکتا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں موجودہ کشیدگیاں، خاص طور پر ایران کے جوہری ہتھیاروں کی تکمیل جس پر سفارتی کاوشیں دم توڑتی نظر آرہی ہیں۔ اور اسرائیلی فوجی ردعمل کے حوالے سے، پیچیدہ چیلنجز پیش کرتی ہیں جنہیں محتاط غور و فکر اور سفارتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی دوڑ کا امکان، خاص طور پر سعودی عرب کی شمولیت کے ساتھ، اس بات کو اجاگر کرتا ہے کہ خطے کی طاقتوں کے درمیان مکالمے اور اعتماد سازی کے اقدامات تقریباً ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں۔ جیسے جیسے صورتحال آگے بڑھتی ہے، عالمی برادری کو سر جوڑنے کی ضرورت ہے، جس کے آثار کم نظر آرہے ہیں کیونکہ خطے میں استحکام، سکیورٹی اور تنازعات کے پر امن حل کی امید دم توڑتی نطر آرہی ہے۔ صرف باہمی تعاون کی کوششوں کے ذریعے ہی مشرق وسطیٰ میں جوہری کشیدگی کو روکنا اگرناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور نظر آرہا ہے۔
جب راقم الحروف مضمون مکمل کر رہا تھا، اُس دوران اچانک خبر آئی کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو کے گھر پر لبنان کی جانب سے ڈرون حملہ ہوا ہے، اس رپورٹ کی تصدیق وزیراعظم ہاؤس نے خود کردی ہے۔ جس پر میڈیا پلیٹ فارمز پر ہنگامی بحث شروع ہو گئی۔ لیکن یہ حملہ ممکنہ طور پر اسرائیل کو نہ صرف حماس اور حزب اللہ کے خلاف جوابی کارروائی کا مربوط جواز فراہم کرتی ہے، بلکہ ایران پر حملہ کرنے کے منصوبے کا فی الفور موقع دے سکتی ہے جس کی وجہ سے خطے میں ایک بھونچال نمودار ہوسکتا ہے جس میں روس اور چین کا بھی پیچھے رہنا مشکل ہوجائے گا۔
ایسے میں پاکستان کے اکابرین کو چاہئے کہ سر جوڑ کر بیٹھیں اور ایران پر اسرائیل کے ممکنہ حملے کے اثرات و مضمرات سے نبرد آزما ہونے کیلئے پہلے سے اپنی منصوبہ بندی مکمل کرلیں۔، وگرنہ پاکستنان جیسے ملک کے حالات نہایت ہی دگرگوں ہوسکتے ہیں۔