پاکستان میں آج نفسا نفسی پر عروج پر پہنچ چکی ہے، ہر شخص حالات سے پریشان نظر آتا ہے اور اپنی یہ فرسٹریشن کسی نہ کسی صورت نکالنے کی کوشش کرتا ہے اور پاکستان میں یہ بھی المیہ بن گیا ہے کہ ہر شخص اپنی غلطی پر جج اور دوسرے کی غلطی پر وکیل بن کر دلائل دینا شروع کردیتا ہے۔
ایسا ہی ان دنوں پاکستان میں سوشل میڈیا پر بحث جاری ہے، سانحہ کارساز کے بعد ہرشخص بغیر تحقیقات کئےسوشل میڈیا پر اپنے فیصلے دے رہا ہے۔
اکثر اوقات ایسے فیصلے جذباتی اورنظریاتی ہوتےہیں اوریادرکھئے نظریہ وہی بنتا ہے جسے معاشرےنے ہمارےذہنوں میں ڈالاہے۔ ہم بغیر تحقیقات کئےیہ ثابت کرنےپر تل جاتےہیں کہ دوسرا غلط ہےاورآج یہی وجہ ہے کہ ناانصافیوں نے ہر ایک کو شکار بنایا ہے۔
برائی کواتناپھیلادیاہے کہ ہمیں ہر شعبہ کےلوگوں پر شک ہوتا ہےاور پھرہم ہرشعبے پر برائی کی مہرلگادیتےہیں اور پھراس شعبے کے لوگوں کو برا سمجھنا شروع کردیتے ہیں۔
آج ہم ہرسیاست دان کو چور، ہر پولیس والے کو رشوت خور، ہرحکومتی ادارے کو طاقت کے آگے جھکنےوالےغلام اور تمام کاروباری افراد کو منافع خوراورہرکام کرنےوالے ملازم کی اہمیت کو نہیں سمجھتے۔
ہم نےایسا ٹرینڈ بنایا ہے جس سے معاشرے میں بے سکونی، بےاعتمادی پھیل گئی ہے۔ ہم سب کو چورچور بولنے بولتے جو نیک اور اچھے لوگ ہیں نہ ان کا ذکر کرتے ہیں اور نہ ان کو اہمیت دیتے ہیں۔
آج ہر سنسنی خیز خبر وہ ہوتی ہے جس میں برائی ہو۔ سوشل میدیا پر ہر آدمی ٹرینڈ کو فالو کرتا ہے۔ وہ ٹرینڈایک نظریئے سے چلتا ہے اوراس نظریےکی تحقیقات کئےبغیراسے آگے بڑھایا جاتاہے۔
کبھی سیاسی لوگ عوام کا ذہن اداروں کےخلاف کرتے ہیں تو کبھی اپنی کمزوریوں کا جواز پیش کرتے ہیں۔ مسائل کی حل کی طرف نہیں آتے۔
لوگوں کے مسائل کبھی حل نہیں ہوں گے جب تک لوگ بغیر سوچے سمجھیں ایکدوسر کو وہ باتیں بتائیں جن سے ان کوکوئی فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ فضول باتوں سے وقت ضائع ہوتا ہے۔
آج پولیس والا چیکنگ کے دوران موٹرسائیکل سواروں کو روک کر بے جا پریشان کرتے ہیں اور پھر وہی موٹر سائیکل والے ان پولیس والوں سے نفرت کرتے ہیں۔
اگر وہ پولیس والے جس طرح موٹرسائیکل والوں سے تحقیقات کرتے ہیں، وہ تحقیقات، لینڈ کروزز والوں، سیاسی اداروں کی گاڑیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کی بسوں سے بھی اسی طرح تحقیقات کریں تو پھڑ اس اسکوٹر والے شخص کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا،تحقیقات کیلئے اور نہ اسکورٹر والا پولیس کو برا بولے گا۔
اسی طرح سیاستدان جب ایک آدمی کی مشکلات کو سمجھیں گے، تو وہ اپنی ذات کو مدنظر نہیں کریں گے اور اپنی ذات سے بالاتر ہوکر عوام کے بارے میں سوچیں گے، یہاں بات صرف سیاستدانوں اور پولیس والوں پر ختم نہیں ہوتی۔
ہر شخص صرف اپنے مفاد کے بارے میں سوچ رہا ہے اور دوسرے کو برا بھلا بولا جارہا ہے۔ جس قسم کی منظر کشی میڈیا پیش کرتی ہے۔ اس سے تمام لوگ متاثر ہونے لگتے ہیں۔ اگر ہر شخص اپنی ذمہ داری کو سمجھے اور دوسرے کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اپنے نظریے سے سوچیں ناں کہ وہ نظریہ جو میڈیا میں یا ایک ہجوم نے بناکر پیش کیا ہو۔
آج اگر ہم سانحہ کارساز کی بات کریں، ہر شخص امیر کے غریب پر ظلم کی بات کرتانظر آتا ہے۔ یہ جو سانحہ کارساز میں ہوا ہے، اسے ہر شخص ایکسیڈنٹ نہیں سمجھ رہا، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر شخص اس معصوم غریب انسان کی لاش کو دیکھ رہا ہے۔
مگروہ صرف ایک لاش نہیں ہے، اس لاش کے ساتھ بہت سی وجوہات ہیں جس کی ہم کبھی تحقیقات نہیں کرتے۔ آج اس ایکسیڈنٹ کے بارے میں ہم سب باتیں کر رہے ہیں جبکہ روزانہ کی بنیاد پر پلوں کے نیچے بیٹھےہوئے لوگ نشہ کر رہے ہوتے ہیں، مگر اداروں کو نظر نہیں آتے۔
یہ نشہ پاکستان میں کس طرح پھیل رہا ہے، ہم نشہ کرنے والے لوگوں سے نفرت توکرتے ہیں مگر کبھی یہ نہیں سوچتے کہ یہ نشے لوگوں تک کس طرح پہنچتے ہیں، کئی مائوں کے بچے چاہے وہ امیر ہو، یا غریب، برباد ہو چکے ہیں۔
خدارا!
اپنے آپ کو بدلیں اور ہر پہلوسے سوچا کریں،جو مر گیا وہ کسی کا بچہ، کسی کا باپ تھا اور اس بات کا اگر احساس ہے تو منشیات کی روک تھام کریں، ورنہ پھر کوئی ٹرک والا، گاڑی والا، بس والا، ڈمپر والا کسی معصوم کا سر کچل دے گا، یہ بات امیری غریبی کی نہیں، اس ناسور کی ہے جس کی طرح ہمارا دھیان نہیں جاتا۔