ہرسال کی طرح اس سال بھی 14اگست کا سورج طلوع ہوا تو اس کے ساتھ ہی ایک ولولہ، ایک جوش، چندباتیں، چند خوبصورت یادیں ہمارے آباؤ اجداد کی جنہوں نے اپنی کاوشوں، اپنی قربانیوں اور اپنی کوششوں کے عوض پاکستان میں بسنے والے ان تمام پاکستانیوں کووطن کاتاقیامت ایک انمو ل تحفہ عطا فرماگئے۔
آزادی کی قدر و منزلت صرف وہی قومیں جانتی ہیں جن کا کوئی ملک نہیں اورجن کا کوئی وطن نہیں، ہمیں اندازہ ہے کہ وہ فلسطینی جو پچھلی سات دہائیوں سے در در کی ٹھوکریں کھارہے ہیں اور لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور آج بھی اپنے وطن سے بے وطن ہیں اور جب بھی جہاں بھی ملتے ہیں تو اپنے اس آہ وفغاں کا ذکر کرتے ہیں جو ان کی آزادی کی نعمت سے محرومی کی غمازی کرتا ہے۔
پاکستان خداوند کریم کا وہ عطا کردہ تحفہ ہے جو اقوام عالم اور عالم اسلام میں اپنی حیثیت کے اعتبار سے جانا اور پہچانا جاتا ہے۔ چند چیلنجز، چند امتحانات تو ہر قوموں کی زندگیوں اور تاریخ میں آتے ہی رہتے ہیں، دور حاضر میں اگر کچھ معاشی ، معاشرتی اور سیاسی چیلنجز درپیش بھی ہیں تو زندہ اور آزاد قومیں ان سے خود کو بااحسن انداز میں نبردآزماہوکر ترقی و کامرانی کی منازل طے کرلیتی ہیں۔
آزادی کا احساس ان مسلمان خاندانوں کو بھی ہے جو تقسیم کے وقت بھارت میں ہی رہ گئے اور آج 77سا ل گزرنے کے بعد بھی انہیں اس بات کا ملال ہے کہ جو آزادی کسی آزاد مملکت میں ہونی چاہیے چاہے وہ مذہبی آزادی ہو یا شخصی آزادی ہو اس سے وہ مستفید ہونے سے قاصر ہیں۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی بصیرت انگیز سوچ جس کا آغاز ایک متحرک انداز میں اس وقت ہوا اور یہ وہی وقت ہے قائد اعظم نے 1916میں مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور جب قائد اعظم محمد علی جناح کو اس بات کا ادراک ہوا کہ کانگریس مسلمانوں کے ساتھ عدل و انصاف کے تحت نہیں چل رہی تو ایسے میں انہوں نے چند بصیرت انگیز شخصیات سے مشاورت کو ترجیح دی جن میں ایک نمایاں اور قابل ذکر نام سرسلطان محمد خان آغا خان سوم کا بھی تھا۔ آغا خان سوم ناصرف مسلم لیگ کے بانی ارکان میں شامل تھے بلکہ مسلم لیگ کے انتہائی اہم و کلیدی عہدوں پر بھی براجمان رہے۔
قائد اعظم محمد علی جناح کا ساتھ دیتے ہوئے آغا خان سوم نے اپنے علم و فراست کی بنا پر مسلم اکابرین اور دانشوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور سب سے بڑی بات تو یہ کہ ابتدائی دور میں مسلم لیگ کو دامے، درمے، سخنے، ہر قسم کی مالی امداد بھی فراہم کی اور تمام تر سپورٹ کے ساتھ ساتھ بیک اپ کے طور پر ایک بھاری بھرکم مالی معاونت بھی فراہم کی تاکہ مسلم لیگ کے ابتدائی ایام میں انہیں کسی قسم کی مالی مشکل کی وجہ سے تنظیم کو چلانے میں دقت پیش نہ آئے۔
سر سلطان محمد خان آغا خان سوم کیلئے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا بلکہ عین مناسب ہوگا کہ ان کی قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ معاونت اور بصیرت کے سبب مسلم لیگ کو وہ دوام ملی کہ مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے میں مدد ملی اور مسلمانوں کو یکجا کرنے کے کارنامہ بھی آغا خان سوم کی بھرپور کوششوں اور کاوشوں کی وجہ سے ہی ممکن ہوپایا۔
یہ بھی کہنا عین حقائق کے مطابق ہوگا کہ آغا خان سوم جیسے بصیرت انگیز اکابرین مسلم لیگ میں اپنا بھرپور کردار ادا نہ کرتے تو شائد ہند و پاک کے مسلمانوں کی تاریخ میں کچھ فرق ہوتا۔
1947 میں قیامِ پاکستان کے بعد آغا خان سوم نے پاکستان آنے والے مسلمانوں کی ہجرت اور آباد کاری میں سہولت کار کا کردار ادا کیا۔ 11 جولائی 1957 کو آغا خان سوم سوئٹزرلینڈ کے شہر ورسوکس میں علالت کے باعث انتقال کر گئے تھے۔
انتقال کے بعد بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں پر آغاخان سوم کی کاوشوں کے اثرات گہرے اور دور رس نتائج کے حامل ہیں۔
آغا خان سوم کے ان تمام منصوبوں اور دور اندیشی پر مبنی خیالات کو مد نظر رکھتے ہوئے دنیا کے کئی ممالک علم، ہنر، ثقافت ، صحت سمیت کئی میدانوں میں انسانیت کی خدمت کی کوشش کررہے ہیں جن کا آغاز پاکستان سے ہوا کیونکہ پاکستان آغا خان سوم کی جائے پیدائش ہے ، ان کی ولادت کراچی میں ہوئی اور ان کے خاندان کے تمام افراد کی پاکستان سے ایک خاص محبت اور انسیت ہے۔
آغا خان سوم کے خاندان سے اظہار تشکر بھی لازم ہے جنہوں نے پاکستان کو آغا خان یونیورسٹی جیسا ادارہ دیا جو کہ مضبوط اور مربوط انداز میں تعلیم اور صحت کی دنیا میں ایک اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور آغا خان یونیورسٹی کے صدر ڈاکٹرسلیمان شہاب الدین کو ہزہانس دی آغا خان کے مشن کو آگے بڑھانے میں جتنی انتھک کوشش کی اس کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے انہیں ایک اعلیٰ ترین سول ایوارڈ ستارہ امتیاز سے نوازاجو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ جو چراغ آغا خان کے خاندان نے جلایا وہ ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین جیسے رہنماؤں اور ہز ہانس دی آغا خان کی قیادت میں دن بد دن چمکتا اور دمکتا جارہا ہے اور اس کی چمک میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔
آج ہزہانس دی آغا خان اپنے دادا سر سلطان محمد شاہ آغا خان کے جانشین بن کر دورِ جدید میں اپنے دادا جان کے جذب انسانیت کو مزید ولولہ انگیزی بخشی اور ان کے نظریات کی روشنی میں تعلیم و صحت اور سماجی و اقتصادی ترقی کے فروغ کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین کو اعلیٰ ترین ایوارڈ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر سلیمان شہاب الدین کی صدارت میں آغا خان یونیورسٹی کی خدمات کو قدر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔
آئیں یہ عہد کریں کہ ہم اپنی تمام تر کاوشوں اور کوششوں کو بروئے کار لاکر تعلیم، صحت، سائنس اور دیگر تمام شعبہ جات میں انتھک محنت کریں تاکہ پاکستان ترقی کی منازل کی طرف بڑھتا اور خوب سے خوب تر ہوتا چلا جائے۔