پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ
پرویز مشرف کے خلاف سزائے موت کا تفصیلی فیصلہ جاری، جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ

اسلام آباد:خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ پرویز مشرف پر پانچ چارج فریم کیے گئے تھے، مجرم کو ہر جرم کے حوالے سے ایک بار سزائے موت دی جائے۔

سلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا، 169صفحات پر مشتمل فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا گیا ، دو ججز کا فیصلہ 25 صفحات پر مشتمل ہے جبکہ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔

فیصلے میں دو ججز جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد کریم نے پرویز مشرف کو پھانسی دینے کاحکم دیا اور ایک جج جسٹس نذر اکبر نے انہیں بری کر دیا ۔ خصوصی عدالت کے بینچ کے سربراہ جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد فضل نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔

دونوں ججز نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین توڑنے، وکلاء کو نظربند کرنے اور ایمرجنسی کے نفاذ کا جرم ثابت ہونے پر پرویز مشرف کو سزائے موت دی جائے اور انہیں اس وقت تک لٹکایا جائے جب تک ان کی جان نا نکل جائے۔

خصوصی عدالت نے تفصیلی فیصلے میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 بار سزائے موت کا حکم دیا ہے۔فیصلے میں لکھا گیا کہ پرویز مشرف پر 5 چارج فریم کیے گئے تھے، مجرم کو ہر جرم کے حوالے سے ایک بار سزائے موت دی جائے۔

دو ججز نے فیصلے میں لکھا کہ جمع کرائے گئے دستاویزات سے واضح ہے کہ ملزم نے جرم کیا، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں۔جسٹس سیٹھ وقار نے فیصلے میں لکھا کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو لاش ڈی چوک لائی جائے اور3 دن تک لٹکائی جائے جبکہ جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس نقطے سے اختلاف کیا۔

پرویز مشرف کو سزا کی حمایت کرنے والے ججز نے لکھا کہ سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا۔فیصلہ میں کہاگیاکہ اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایاہوتا توقوم کویہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔

نظریہ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری جرم کاارتکاب کیا، اس نتیجے پرپہنچے ہیں جس جرم کاارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتاہے۔فیصلہ میں کہاگیاکہ آرٹیکل 6 آئین کاوہ محافظ ہے جو ریاست،شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنیوالے کا مقابلہ کرتا ہے، ہماری رائے ہے سنگین غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا۔

فیصلہ میں کہاگیاکہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کرکے لائیں تاکہ سزا پر عملدر آمد کرایا جا سکے، پیراگراف نمبر 68 میں لکھا گیا ہے کہ ملزم پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھگانے والے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ سنگین غداری کا ٹرائل ان لوگوں کیلئے آئین کی ضرورت ہے جو کسی بھی وجہ سے آئین کو کمزور کریں یا اسے کمزور کرنے کی کوشش کرے، لہٰذا یہ عدالت استغاثہ کی جانب سے ملزم کے خلاف پیش کیے گئے ناقبل تردید، ناقابل تلافی اور ناقابل اعتراض ثبوتوں کو دیکھنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچی کہ واقعی ملزم نے جرم کیا ہے اور وہ مثالی سزا کا مستحق ہے۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزم کے عمل اور برتاؤ سے یہ واضح ہے کہ اس مقدمے کی شروعات سے ہی ملزم نے اس میں تاخیر، پیچھے ہٹنے اور حقیقت میں اس سے بچنے کیلئے مستقل کوشش اور ضد کی۔

فیصلے میں کہا گیا کہ یہ ان کی درخواست رہی کہ وہ صحت کی خرابی یا سیکیورٹی کے خطرات کی وجہ سے مقدمے کا سامنا کرنے کے لیے عدالت تک نہیں پہنچ سکتے۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ ہم قانون نافذ کرنے والے اداروں کو ہدایت کرتے ہیں کہ وہ مفرور،مجرم کو پکڑنے کے لیے اپنی بھرپور کوشش کریں اور اسے یقینی بنائیں کہ انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

جسٹس نذر اکبر نے 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا لہذا انہیں رہا کیا جائے۔ انہوں نے اپنے نوٹ میں لکھا کہ میں نے ادب سے اپنے بھائی وقار احمد سیٹھ صدر خصوصی کورٹ کا مجوزہ فیصلہ پڑھا ہے، میں ادب کے ساتھ صدر عدالت اور اکثریت کی آبزرویشنز اور نتائج سے اختلاف کرتا ہوں۔

جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ پارلیمنٹ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر آرٹیکل 6 میں ترمیم کر کے عدلیہ کو دھوکا دیا، اس عمل کا واحد ہدف 3 نومبر 2007 کا اقدام تھا، قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، ایک بھی رکن پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی۔

اختلافی نوٹ میں لکھا گیا کہ قومی اسمبلی نے 7 نومبر2007 کو اپنی قرارداد منظور کر کے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی، بہت سارے پارلیمنٹرینز وکلاء تھے اور وہ وکلاء تحریک کا حصہ تھے، کسی میں ہمت نا ہوئی کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک لا سکے۔

مزید پڑھیں: اٹارنی جنرل نے سزائے موت کے فیصلے کو غلط قرار دے دیا

جسٹس نذر اکبر نے لکھا کہ پاک فوج کا ہر سپاہی آئین پاکستان کی پاسداری کا پابند ہے، آئین توڑنے والے جنرل کا ساتھ دینے والی ہائی کمان آئین کے تحفظ میں ناکام رہی، جنرل مشرف فضاء میں تھے، ان کے ساتھیوں نے غیر آئینی اقدام اٹھا لیا۔

Related Posts