پاکستانی خاندان سے فراڈ، ملزمان کو 96 سال قید اور5.8ملین جرمانہ

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
(فوٹو: پکسا بے)

راولپنڈی: پاکستانی نژاد برطانوی خاندان کے ساتھ فراڈ کے ملزمان کو 96 سال قید اور5.8ملین روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔  فارنزک تفتیش کے دوران زمینوں کے دستاویزات میں ہیراپھیری اور ردوبدل کی تصدیق ہوگئی

تفصیلات کے مطابق اینٹی کرپشن راولپنڈی عدالت کے ڈسٹرکٹ اور سیشن جج نے برطانیہ کی معروف پاکستانی فیملی کی زمینوں پر قبضہ کرنے کے الزام میں 4 افراد کو، جن میں 2 ریونیو افسر بھی شامل ہیں، دھوکہ دہی، ہیرا پھیری اور ملکیت کے جعلی کاغذات تیار کرنے کے الزامات میں96 سال قیدبامشقت، 5.8ملین روپے جرمانہ کی سزا سنادی۔

اینٹی کرپشن کورٹ کے خصوصی جج علی نواز نے ملزم اورنگزیب پٹواری، ملک محمد صفدر، محمد الماس عباسی، حق نواز عباسی اور راجہ شاہد احمد کو برٹش پاکستانی تاجر نثار احمد افضل کی زمینوں پر جعل سازی کے ذریعے قبضہ کرنے، کاغذات میں جعل سازی کرنے کے الزام میں سزا سنائی۔ ملزمان  پہلے ضمانت پر رہا تھے۔

ملزمان کو سزا سنائے جانے کے بعد سینٹرل جیل اڈیالہ بھیج دیا گیا۔ فراڈ کا یہ مقدمہ نومبر2021 میں راولپنڈی میں برمنگھم میں ایجباسٹن کے حمزہ افضل اور ان کے والد نثار افضل نے اورنگ زیب پٹواری اور ملک محمد صفدر کی جانب سے مجرمانہ طور پر زمینوں کے سرکاری ریکارڈ میں ردوبدل کرکے زمین3 بااثر افراد پر اپنی زمینوں پر فراڈ کے ذریعے قبضے کے الزام میں درج کرایا تھا۔

بااثر افراد الماس عباسی ولد محمد اسلم، حق نواز عباسی ولد خداداد خان اور راجہ شاہد ولد راجہ بشیر پر قبضہ کرنے کے الزام میں ضلع راولپنڈی کی راجر تحصیل میں مقدمہ درج کیا گیا۔ شکایت کنندہ نے ڈائریکٹر جنرل اینٹی کرپشن لاہور (پنجاب) اینٹی کرپشن لاہور کو درخواستیں دی تھیں، جن میں کہا گیا تھا کہ پنجاب فارنسک سائنس ایجنسی ( پی ایف ایس اے) نے معاملے کی تفتیش کی،

درخواستوں میں کہا گیا کہ تفتیش سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ ملزمان نے جعلی دستخطوں کے ذریعہ لینڈ رجسٹری کے ریکارڈ میں ردوبدل کیا ہے اور برٹش پاکستانی فیملی کے ساتھ فراڈ کرنے کیلئے اصل لینڈ ریکارڈ میں اضافی صفحات شامل کئے گئے۔ عدالت کو بتایا گیا کہ زمین کا موٹیشن گردوار سے مطابقت نہیں جو کہ قانون کے تحت بہت ضروری ہے۔

درخواستوں کےمطابق راجہ شاہد، الماس عباسی اور حق نواز نے ابتدا میں جعل سازی کی اس اسکیم میں شریک ہونے کے بارے میں انکار کیا تھا لیکن اینٹی کرپشن لاہور (پنجاب) کی فارنسک تفتیش سے یہ ثابت ہوا کہ وہ کم وبیش3 بلین روپے (کم وبیش10 ملین پونڈ) مالیت کی قیمتی زمین ہتھیانے کیلئے کاغذات میں ردوبدل، فراڈ اور ہیرا پھیری میں شریک تھے۔

اینٹی کرپشن عدالت کے اسپیشل جج علی نواز نے کہا کہ یہ بات کسی شک وشبہے کے بغیر ثابت ہوچکی ہے کہ ملزمان نے اوورسیز پاکستانی نثار افضل اور ان کی فیملی کے خلاف ہیراپھیری اور جعلی کاغذات کے ذریعے دھوکہ بازی کی اور تمام ملزمان کو مختلف الزامات کے تحت96 سال قید کی سزا سنائی۔

عدالت نے کرمنل مس کنڈکٹ کی 5 دفعات کے تحت راجہ شاہد کو17 سال قید اور1.2 ملین روپے جرمانہ، حق نواز عباسی کو17 سال قید اور1.2 ملین روپے جرمانہ، اورنگزیب پٹواری کو31 سال قید اور1.7 ملین روپے جرمانہ کی سزا سنائی، محمد صفدر نائب تحصیلدار کو31 سال قید اور1.7 ملین روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔

مقدمے کا اصل ملزم الماس عباسی مقدمے کی سماعت کے دوران ہی گزشتہ سال دسمبر میں وفات پاچکا ہے۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ موٹیشن میں انٹریز سیاہ اور سرخ روشنائی سے کی گئی ہیں لیکن16 مئی2005 کو ایک سینکشن آرڈر میں، جو ریونیو افسر غلام مجتبیٰ نائب تحصیلدار نے لکھا ہے، کٹنگ کے ساتھ نیلی روشنائی استعمال کی گئی ہے۔

نائب تحصیلدار غلام مجتبیٰ کے تحریر کردہ اس ڈاکومنٹ کو ہینڈ رائٹنگ کےماہر کے پاس تصدیق کیلئے بھیجا گیا تو اس بات کی تصدیق ہوئی کہ یہ تحریر نائب تحصیل دار غلام مجتبیٰ کی نہیں ہے، اسی طرح موٹیشن نمبر 5442/1 نائب تحصیلدار غلام مجتبیٰ کے دستخط اس کے معمول کے دستخط سے ملانے کیلئے بھیجے گئے تو فارنسک رپورٹ میں تصدیق ہوئی کہ یہ دستخط غلام مجتبیٰ کے دستخطوں سے میچ نہیں کرتے۔

اس طرح غلام مجتبیٰ کے اس دعوے کی تصدیق ہوگئی کہ سابق سرکل پٹواری اورنگزیب کی پیش کردہ موٹیشنز کی اس نے کبھی منظوری ہی نہیں دی۔ فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ نثار افضل سزایافتہ ملزمان کے خلاف کرمنل کارروائی کرنے اور متعلقہ قوانین کے تحت ڈیمیجز کا دعویٰ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

فیصلے میں کہا گیا ہے، میں اس فیصلے پر پہنچا ہوں کہ ملزمان نے شکایت کنندہ کو نقصان پہنچانے اور غیرقانونی طور پر فائدہ حاصل کرنے کیلئے دھوکہ دہی، فراڈ اور ہیراپھیری کی، جعلی ڈاکمنٹس تیار کئے۔ گزشتہ سال برطانیہ کے سیریس فراڈ آفس (ایس ایف او) نے ان کو سزا دلانے کیلئے کافی شواہد نہ ہونے کی وجہ ایک مارگیج فراڈ کیس خارج کردیا تھا

آج سے 15 سال قبل جب یہ مقدمہ چارج کیا گیا تھا، نثار افضل پاکستان چلے گئے تھے۔ انھوں نے یہ مؤقف اختیار کیا تھا کہ انھیں ایک ایسے مقدمے میں ملوث کیا جا رہا ہے، جس میں ان کا کوئی کردار نہیں تھا، بعد میں ایس ایف او نے یہ تسلیم کیا کہ اس کے پاس کافی شواہد نہیں ہیں اور گزشتہ سال مقدمہ ختم کردیا تھا۔

نثار افضل نے ایک بیان میں کہا کہ مجھے اس بات پر اطمینان نصیب ہوا کہ آخرکار انصاف ہوگیا، یہ فنانشل دہشت گردی کا مقدمہ تھا۔ مقدمے کے دوران لین دین کے ریکارڈ کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ میں بالکل جائز طریقے سے اس زمین کا مالک ہوں اور تفتیش کے دوران ملزمان دھوکے باز، جھوٹے اور اسکیمر ثابت ہوگئے لیکن یہ فراڈ ثابت کرنے میں کئی سال لگ گئے۔

انہوں نے کہا کہ میرا بہت نقصان ہوا کیونکہ ملزمان کی جانب سے قتل کی دھمکیاں ملنے کے سبب میرے خاندان کے کچھ لوگوں کو برطانیہ جانا پڑا، یہ دن دہاڑے ڈاکہ زنی کا واقعہ تھا، میں انصاف دینے پرعدالت اور پراسیکیوشن کا شکر گزار ہوں۔ اوورسیز پاکستانی بہت بڑا اثاثہ ہیں اور ان کے ساتھ یا کسی کے بھی ساتھ ایسا نہیں ہونا چاہئے۔

Related Posts