گزشتہ دنوں پاکستان کی سیاسی فضا میں ایک عجیب سی بلکہ بڑی پر اسرار قسم کی پریشان کن پیشرفت سامنے آئی، جب سینیٹ میں عام انتخابات موخر کروانے کی قرار داد منظور کی گئی۔
اس قرار داد کی منظوری کی خبر سامنے آنا تھی کہ ملک میں ہر طرف حیرت و استعجاب کا سماں بندھ گیا اور ایسا لگا کہ دو چار ہاتھ جبکہ لب بام رہ گیا ہے، انتخابات کی کمند اب ٹوٹی کہ تب ٹوٹی۔ ایک ایسے موقع پر جب بڑے انتظار، سخت رد وکد، بڑی لے دے، کافی لیت و لعل اور خاصی تاخیر کے بعد بہ مشکل الیکشن کمیشن کی جانب سے دستوری تقاضوں کے مطابق ملک میں عام انتخابات کروانے کیلئے تاریخ دینے کی نوبت آئی تھی اور اب ملک الیکشن کی طرف بڑھنے کیلئے پوری طرح تیار نظر آرہا ہے اور تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈر الیکشن کی طرف بڑھتے دکھائی دے رہے ہیں، اچانک پارلیمان کے ایوان بالا میں انتخابات ملتوی کروانے کی پر اسرار قرار داد کی منظوری بلا شبہ نظر انداز کیے جانے کی قابل ہرگز نہ تھی۔
یہ سراسر ایک غیر سنجیدہ پیشرفت تھی، بعد میں معلوم پڑا کہ اس کے کرتا دھرتا بلوچستان کی ایک پارٹی کے ارکان تھے۔ سینیٹ کو فیڈریشن کے اتحاد اور ریاست کی وحدت کی علامت گردانا جاتا ہے، جس کا تقاضا یہ ہے کہ سینیٹ میں علم و فضل، فکر و نظر اور دانش و حکمت کے حامل چنیدہ افراد موجود ہوں اور ہمہ وقت ملک و قوم کا اتحاد اور ریاست کی قوت مجتمع رکھنے کی فکر اور سعی کریں، یہی وجہ ہے کہ پارلیمنٹ کا ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے باوجود سینیٹ کا وجود قائم رہتا ہے اور یہ ادارہ اپنے دستوری فرائض کی انجام دہی کیلئے ہمہ وقت دستیاب ہوتا ہے۔
تاہم اس قرار داد کے ساتھ اس کی طرح آئے دن جیسے مضحکہ خیز اقدامات، قانون سازی اور موضوعات سینیٹ میں زیر بحث لائے جاتے ہیں، اس سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ قومی اور آئینی اہمیت کے اس اہم ادارے میں اس کی روح اور تقاضوں کے مطابق ارکان اور افراد کا شدید فقدان ہے۔
یہ المیہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کیا ہیں؟ سینیٹ کے انتخابات پیسے اور دولت کے استعمال کیلئے بدنام ہیں، اس طرح کی غیر ذمے دارانہ قرار دادیں اور لا یعنی مباحث سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ طرز عمل ملک و قوم کیلئے کس قدر نقصان اور ضیاع وقت کا باعث بن رہا ہے اور محض پیسے کا کھیل چلا کر سیاسی جماعتوں کی طرف سے لوگوں کو بھاری رقوم لیکر سینیٹر بنوانے یا پھر کسی دولت مند شخص کا پیسہ پانی کی طرح بہا کر سینیٹ کی ممبر شپ حاصل کرنے کا یہ عمل کس قدر افسوسناک ہے، جس کے نتائج پھر موقع بہ موقع ایسی لایعنی قرار دادوں کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
موسمی حالات اور امن و امان کی صورتحال کو بہانہ بنا کر الیکشن التوا کی جو قرار داد منظور کی گئی، اس نے آن کی آن میں پوری قوم میں اس قدر بے یقینی کی لہر دوڑائی کہ اس کے اثرات تمام تر تردیدوں اور اظہار لا تعلقی کے باوجود اب تک زائل نہیں ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مستقبل کی سیاسی صورت گری کی طرف دستوری پیش رفت کے حوالے سے پائی جانے والی قومی وحدت پر ایک غیر ذمے دارانہ وار تھا، جس کی تمام سیاسی جماعتوں نے بہ یک زبان مذمت کی اور اس قرار داد کی منظوری میں شامل ارکان کیخلاف تحقیقات اور کارروائی کے مطالبات سامنے آئے۔
یہ قرار داد انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے اب تک کی تمام کوششوں اور بھاری سرکاری اخراجات و انتظامات کو بہ یک جنبش قلم ریورس گیئر لگا کر ہنوز روز اول کی پوزیشن پر ڈالنے کا حربہ تھا، جس کو خوش قسمتی سے تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ آواز بلند کرکے ناکام بنانے کی کوشش کی ہے۔ ملک ایک ایسی فضا میں اللہ اللہ کرکے انتخابات کی سمت جا رہا ہے جس میں ہر طرف تنازعات اور تحفظات کا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ اس نازک موقع پر انتشار اور انارکی کا باب بند کرنے کیلئے ہی انتخابات کی طرف قدم بڑھائے جا رہے ہیں، اگر خدا نخواستہ یہ قدم بڑھتے بڑھتے رک گئے یا روک دیے گئے تو اس سے ملک و قوم پہلے سے زیادہ عدم استحکام اور شدید انتشار کی دلدل میں دھنس سکتا ہے، جس سے نکلنا آسان نہیں ہوگا۔
ایسے موقع پر جب الیکشن کی منزل دو چار ہاتھ کی دوری پر ہے، الیکشن کو التوا میں ڈالنے کی باتیں ملک کی وحدت اور سلامتی کیلئے کسی طرح بھی مناسب نہیں ہیں، اس لیے کسی کے بھی دماغ کے کسی گوشے میں ایسا کوئی خیال پنپ رہا ہے تو اسے جھٹک دینا چاہیے۔
الیکشن کی گاڑی کو عین موقع پر کسی اور طرف موڑنے کی کوشش کا انجام اکہتر کے الیکشن کے بعد مشرقی پاکستان کے دار الحکومت ڈھاکے میں قومی اسمبلی کا طے شدہ اجلاس منعقد کرنے سے روکنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بدترین انارکی جیسا بھی ہوسکتا ہے، جو کسی طرح بھی ملک و قوم کے مفاد میں نہیں۔
امید ہے کہ سینیٹ کے ارکان اب سابقہ عاقبت نا اندیشانہ قرار داد کے اثرات زائل کرنے کیلئے بروقت الیکشن کا انعقاد یقینی بنانے کی نئی قرار داد کی منظوری کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ایک غیر سنجیدہ اور غیر ذمے دارانہ قرار داد پیش اور منظور کرنے والے ارکان سے بھی سخت بازپرس کی جائے، تاکہ آئندہ کسی کو بھی ایسی غیر ذمے دارانہ حرکت کرنے کی جرات نہ ہو۔