غزہ کا قتل عام اور دنیا

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسرائیلی فوج نے غزہ کی پٹی میں بھوک اور دہشت زدہ شہری آبادی کے خلاف جدید دور کا سب سے وحشیانہ قتل عام جاری رکھا ہوا ہے۔

7 اکتوبر سے اسرائیل غزہ میں وہی کچھ کر رہا ہے جو نکبہ کے بعد سے فلسطینی عوام کے ساتھ کرتا آرہا ہے، لیکن زیادہ توجہ کے ساتھ۔ فلسطین کے عربوں کو 1948 سے لے کر اب تک جس اذیت، قتل، تذلیل اور لوٹ مار کا سامنا کرنا پڑا ہے  اور اس سے بھی پہلے، جب سے 20ویں صدی کے اوائل میں عرب سرزمین پر صیہونی تجاوزات شروع ہوئی تھیں، ان تمام تاریخی مظالم کو گزرے 80 سے زیادہ دنوں میں زیادہ گھناؤنی شکل میں دیکھا جا سکتا ہے۔

جہاں ایک طرف اسرائیل براہ راست ظلم جاری رکھے ہوئے ہے، وہاں اس ضمن میں مغرب اور مسلم دنیا کا کردار بھی نہایت مایوس کن ہے، کیونکہ ظالم کا ہاتھ روکنے کیلئے سبھی عملی اقدامات میں مکمل ناکام نظر آ رہے ہیں۔ غزہ میں اقوام متحدہ کی تنصیبات پر جتنے حملے ہوئے ہیں اور اس عالمی ادارے کے رضا کاروں کو بھی اسرائیل جس طرح آئے دن قتل کر رہا ہے، اس نے  یوکرین کے لیے مرنے والے اقوام متحدہ کو بھی اسرائیل کے معاملے میں بری طرح بے نقاب کر دیا ہے۔

دنیا اور اقوام متحدہ کی منافقانہ بے بسی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ یو این سلامتی کونسل میں غزہ کو انسانی امداد پہنچانے کی قرارداد بڑی مشکل سے پاس ہو بھی گئی تو اب تک اسرائیل اس قرارداد کو اقوام متحدہ کے توسط سے پوری اقوام عالم کے منہ پر مار چکا ہے اور سلامتی کونسل جیسے اقوام متحدہ کے طاقتور ترین ادارے کے احکامات کو ہوا میں اڑا کر غزہ تک امداد کی بہم رسانی کی راہ میں کھلے عام رکاوٹ ڈال رہا ہے اور سلامتی کونسل اور عالمی برادری اس کھلی غنڈا گردی پر منہ میں گھنگھنیاں ڈالے مِنقار زیر پر ہیں۔

عالمی اداروں نے مشاہدہ کیا ہے کہ جارح، غاصب، قابض اور ظالم اسرائیل کیلئے عالمی ادارے کی قرارداد یکسر بے معنی ہے۔ امداد پہنچا بھی دی جائے تو اس کا کوئی فائدہ اس لیے نہیں کہ اسرائیل نہایت سفاکی کے ساتھ بلا توقف سویلین آبادی کے کشتوں کے پشتے لگانے کی کارروائی جاری رکھے ہوئے ہے۔

سلامتی کونسل میں اصل قرار داد جنگ بندی کی تھی۔ پوری دنیا ایک آس اور امید لیے جنگ بندی کی قرارداد لیکر سلامتی کونسل پہنچی تھی مگر وہاں بیٹھے نام نہاد عالمی امن، انسانی حقوق اور جمہوریت کے جھوٹے دعویدار، اسرائیل کے سرپرست امریکا نے ایک بار پھر جنگ بندی کی قرارداد کو التوا میں ڈالے رکھا۔ کئی دن بعد اس میں سے جنگ بندی کی شق کو نہایت ڈھٹائی اور بے شرمی سے نکال کر اسے صرف امداد کی بہم رسانی کے ایک نحیف سے مطالبے میں بدل دیا۔

اب ایک طرف اسرائیل کی وحشیانہ بمباری جاری ہو تو اس صورت میں امداد کا بھلا کیا فائدہ ہوسکتا ہے؟ صاف ظاہر ہے کہ امریکا نہیں چاہتا تھا کہ اس کے لے پالک اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینی بچوں کا قتل عام رک جائے، چنانچہ اس نے یہی کیا کہ قرارداد کو بے معنی بنا کر رکھ دیا اور اسرائیل کو اپنا ظلم جاری رکھنے کی بالواسطہ آزادی دے دی۔ اس سے دنیا کو اب سمجھ جانا چاہئے کہ امریکا دنیا میں امن کیلئے کس قدر سنجیدہ ہے؟

 دوسری طرف مسلسل اسرائیلی بمباری اور مکمل محاصرے کے باعث غزہ میں قحط جیسے حالات پیدا ہو رہے ہیں، اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام کا کہنا ہے کہ غزہ کی بدقسمت پٹی کو “تباہ کن حالات” کا سامنا ہے کیونکہ غزہ کے لوگ بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ ایک اور جنگی جرم ہے جو اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف کررہا ہے۔

یہ کس قدر سنگین المیہ ہے کہ 20000 سے زائد فلسطینیوں کی موت جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں، بھی عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے سے قاصر ہے۔ دنیا کی بے حسی، بے بسی، عالمی طاقتوں کی ڈھٹائی اور عالم اسلام کی مجرمانہ خاموشی ایک طرف، تاہم فلسطینی عوام کی بہادری اور ثابت قدمی کی جس قدر بھی تعریف کی جائے وہ کم ہے، جبکہ ان کے قاتلوں اور قاتلوں کے سرپرستوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ ان میں انسانیت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

Related Posts