پروین شاکر کو مداحوں سے بچھڑے ہوئے 29 سال کا طویل عرصہ گزرا جبکہ آج مداح عہد ساز شاعرہ کا 71واں یومِ پیدائش منا رہے ہیں۔پروین شاکر کی اچانک وفات نے ادبی حلقوں کو سوگوار کردیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق پروین شاکر نے 24 نومبر 1952ء کو شہرِ قائد میں آنکھ کھولی جبکہ شہرتِ دوام حاصل کرنے والی پروین شاکر کا پہلا مجموعہ خوشبو شاعری کے میدان میں ان کی پہلی پہچان بنا جس کے درجنوں اشعار آج بھی مداحوں کی زبانوں پر ہیں۔
[visual-link-preview encoded=”eyJ0eXBlIjoiaW50ZXJuYWwiLCJwb3N0IjoxODE1NDgsInBvc3RfbGFiZWwiOiJQb3N0IDE4MTU0OCAtINmF2KfYsduM24Eg2KjbjCDZhtuSINin2LPYsdin2KbbjNmE24wg2b7Ysdin2ojaqdm52LMg2qnYpyDYqtin2K3bjNin2Kog2KjYp9im24zaqdin2bkg2qnYsdmG25Ig2qnYpyDYp9i52YTYp9mGINqp2LHYr9uM2KciLCJ1cmwiOiIiLCJpbWFnZV9pZCI6MTgxNTQ5LCJpbWFnZV91cmwiOiJodHRwczovL21tbmV3cy50di91cmR1L3dwLWNvbnRlbnQvdXBsb2Fkcy8yMDIzLzExL01hcmlhLUItMS0zMDB4MjUwLmpwZyIsInRpdGxlIjoi2YXYp9ix24zbgSDYqNuMINmG25Ig2KfYs9ix2KfYptuM2YTbjCDZvtix2KfaiNqp2bnYsyDaqdinINiq2KfYrduM2KfYqiDYqNin2KbbjNqp2KfZuSDaqdix2YbbkiDaqdinINin2LnZhNin2YYg2qnYsdiv24zYpyIsInN1bW1hcnkiOiLZhdin2LHbjNuBINio24wg2qnYpyDYtNmF2KfYsSDZvtin2qnYs9iq2KfZhiDaqduSINmF2LTbgdmI2LHZiNmF2LnYsdmI2YEg2YHbjNi02YYg2ojbjNiy2KfYptmG2LHYsiDZhduM2rog2qnbjNinINis2KfYqtinINuB25LblCDYrdin2YQg24HbjCDZhduM2rog2YXYp9ix24wg2KjbjCDZhtuSINi62LLbgSDZhduM2rog2YLYqtmEINmIINi62KfYsdiqINm+2LEg2KfYs9ix2KfYptuM2YTbjCDZvtix2KfaiNqp2bnYsyDaqdinINiq2KfYrduM2KfYqiDYqNin2KbbjNqp2KfZuSDaqdix2YbbkiDaqdinINin2LnZhNin2YYg2qnYsdiv24zYp9uUINiq2YHYtduM2YTYp9iqINqp25Ig2YXYt9in2KjZgiDZhdin2LHbjNuBINio24wg2YbbkiDYutiy24Eg2YXbjNq6INis2KfYsduMINin2LPYsdin2KbbjNmEINqp24wg2YjYrdi024zYp9mG24Eg2KjZhdio2KfYsduMINm+2LEg2KfYrdiq2KzYp9isINqp2LHYqtuSINuB2YjYptuSINin2LPYsdin2KbbjNmE24wg2b7Ysdin2ojaqdm52LMg2KrYp9it24zYp9iqINin2LPYqti52YXYp9mEINmG24Eg2qnYsdmG25Ig2qnYpyDYp9i52YTYp9mGINiz2YXYp9is24wg2LHYp9io2LfbkiDaqduMINmI24zYqCDYs9in2KbZuSDYp9uM2qnYsyAo2bnZiNim2bnYsSkg2b7YsSDaqduM2Kcg2KzYs9uSINuB2LLYp9ix2YjauiDYp9mB2LHYp9ivINmG25Ig2b7Ys9mG2K8g2qnbjNin25QgTm90aGluZyB3YXMgdGFraW5nIG1lIG91dCBvZiB0aGUgZGVwcmVzc2lvbiBhbmQgaGVscGxlc3NuZXNzIG9mIHRoZSBnZW5vY2lkZSB3ZSBhcmUgZm9yY2VkIHRvIHdpdG5lc3MgaW4g8J+HtfCfh7gg8J+SlCBZZXN0ZXJkYXkgaSBkZWNpZGVkIHRvIHR1cm4uLi4iLCJ0ZW1wbGF0ZSI6InNwb3RsaWdodCJ9″]
آج سے 47سال قبل خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کا پہلا مجموعہ 1976ء میں شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں پہنچا تو ملک بھر میں ان کے حسنِ بیان کی دھوم مچ گئی جس کے بعد ماہِ تمام، خود کلامی اور انکار بھی شائع ہوئے اور خوب داد حاصل کی۔
مچل مارش کے ٹرافی پر پیر رکھنے پر اروشی روٹیلا کا رد عمل
خوشبو کی شاعرہ پروین شاکر کو موت سے قبل ہی اپنے اچانک خالقِ حقیقی سے جا ملنے کا علم ہوچکا تھا، جس کی گواہی ان کے اشعار میں دیکھی جاسکتی ہے، خصوصاً یہ شعر:
مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھُلا ہی دیں گے
لفظ میرے مِرے ہونے کی گواہی دیں گے
ان کی شاعری میں ایک الگ اور منفرد اندازِ بیان نظر آتا ہے جو قاری کو ذہن و فکر کی ہر سطح پر متاثر کیے بغیر نہیں رہتا:
بخت سے کوئی شکایت ہے نہ افلاک سے ہے
یہی کیا کم ہے کہ نسبت مجھے اس خاک سے ہے؟
بزمِ انجم میں قبا خاک کی پہنی میں نے
اور مِری ساری فضیلت اِسی پوشاک سے ہے
خواب میں بھی تجھے بھولوں تو روا رکھ مجھ سے
وہ رویہ جو ہوا کا خس و خاشاک سے ہے
ہاتھ تو کاٹ دئیے کوزہ گروں کے ہم نے
معجزے کی وہی اُمید مگر چاک سے ہے
روایتی شاعری کے موضوعات بشمول عشق، بے وفائی اور ہجر و وصال کے ساتھ ساتھ جدید شاعری کے استعارے اور اندازِ بیان بھی پروین شاکر کا خاص ہتھیار ثابت ہوئے:
عقب میں گہرا سمندر ہے، سامنے جنگل
کس انتہا پہ مِرا مہربان چھوڑ گیا؟
عقاب کو تھی غرض فاختہ پکڑنے سے
جو گر گئی تو یونہی نیم جان چھوڑ گیا
شاعری کے ساتھ ساتھ شعبۂ تدریس اور سول سروس میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے والی پروین شاکر کا طرۂ امتیاز صرف اور صرف اُردو شاعری بنی جو ہر دور میں انہیں زندہ رکھے گی۔
حکومتِ پاکستان نے پروین شاکر کی شعبۂ ادب میں خدمات کے اعتراف میں انہیں 1990ء میں تمغۂ حسنِ کارکردگی اور آدم جی ادبی ایوارڈ سے بھی نوازا۔
پروین شاکر 26 دسمبر 1994 کو ایک کار ایکسیڈنٹ کے باعث اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں اور زبان و ادب پر ان کی غزلوں اور نظموں کی صورت میں کیے گئے احسانات آج بھی ان کی موجودگی کی گواہی دیتے ہیں۔
ہر سال پروین شاکر کی پیدائش کے موقعے پر انہیں یاد کیاجاتا ہے۔ معروف شاعرہ پروین شاکر نے شاعری کے علاوہ بطور میزبان ٹی وی پر مختلف انٹرویوز بھی کیے اور اپنی گفتگو اور اردو زبان پر گرفت کا لوہا منوایا۔
معروف قلمکار اور نامور شاعر احمد ندیم قاسمی نے پروین شاکر کی شعر گوئی کی صلاحیت کونکھارنے میں ان کی مدد کی۔ تکنیکی اعتبار سے پروین شاکر کو نئے لب و لہجے کی تازہ بیان شاعرہ سمجھا جاتا ہے جو ادب کیلئے ہوا کا خوشگوار جھونکا ثابت ہوئیں۔
ان کی شاعری نہ تو آہ و زاری والی روایتی عشقیہ شاعری سمجھی جاسکتی ہے اور نہ ہی کھل کھیلنے والی رومانوی شاعری بلکہ جذبے اور احساس کی شدت کا سادہ لیکن فنکارانہ اور پرکار بیان پروین شاکر کی شاعری کا خاصہ رہا۔
متعدد گلوکاروں نے پروین شاکر کی زندگی میں ہی ان کی غزلیں گا کر عوام سے داد سمیٹی جس میں خاص طور پر پروین شاکر کی غزل کو بہ کو پھیل گئی بات شناسائی کی، بے حد مشہور ہوئی تاہم یہ واحد غزل نہ تھی جسے گایا گیا، بلکہ ایسی درجنوں غزلیں ہیں۔