اسرائیل اور حماس کے درمیان انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا اعلان ہوچکا ہے، جس کے دوران قیدیوں کا تبادلہ کیا جائے گا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حماس اپنے قبضے سے اسرائیلی قیدیوں کو اسرائیل کے حوالے کرنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرے گی؟ اور اسرائیل اپنی جیلوں میں قید فلسطینیوں کو کیسے رہا کرے گا؟
اسرائیل اور حماس کے درمیان انسانی بنیادوں پر ہونے والا جنگ بندی کا معاہدہ مصر، قطر اور امریکہ کی مشترکہ ثالثی کی کوششوں کی کامیابی کے بعد اگلے 24 گھنٹوں کے اندر 4 دن کی مدت کے لیے نافذ العمل ہو جائے گا۔
فلسطینیوں کا جذبہ ایمانی امریکیوں کو اسلام کی طرف کھینچنے لگا
معاہدے میں کیا ہے؟
معاہدے کے تحت پہلے حماس کی قید سے 50 سویلین خواتین اور بچوں کی مرحلہ وار رہائی عمل میں آئے گی، جس کے بعد اسرائیل اپنی جیلوں میں قید متعدد فلسطینی خواتین اور بچوں کو رہا کرے گا۔
معاہدے میں اس کے علاوہ امدادی قافلوں کی بڑی تعداد کو غزہ میں داخلے کی اجازت بھی شامل ہے، نیز حماس کی شرط کے مطابق اسرائیل غزہ کیلئے ایندھن لے جانے کی اجازت دینے پر بھی اتقاق کرچکا ہے۔
معاہدے پر اسرائیلی کابینہ کی رائے
حماس سے اس معاہدے کی انتہا پسند “یہودی عظمت پارٹی” کے تین وزرا کے سوا پوری صہیونی کابینہ نے منظوری دی۔ انتہا پسند یہودی عظمت پارٹی کی قیادت شدت پسند سیاسی رہنما اتمار بن گویر کر رہے ہیں۔
اس کے علاوہ “مذہبی صہیونیت پارٹی” نامی انتہا پسند پارٹی کے وزراء نے، جس کی قیادت اسرائیلی وزیر خزانہ بیزلیل سموٹریچ کر رہے ہیں، نے جنگ بندی کی حمایت میں ووٹ دیا۔
قیدیوں کا تبادلہ کیسے عمل میں آئے گا؟
الجزیرہ کے مطابق سب سے پہلے ثالثوں کے ذریعے حماس کو اسرائیلی قیدیوں کی فہرست بھیجی جائے گی، جس کے بعد اگلے دن حماس ان کو رہا کر دے گی۔
حماس کے حکام ان یرغمالیوں کو ایک ایک کرکے ریڈ کراس کے حوالے کر دیں گے، ریڈ کراس والے انہیں رفح کے علاقے میں پہنچائیں گے اور وہاں مصری، قطری اور امریکی ثالثوں کی نگرانی میں انہیں اسرائیل منتقل کیا جائے گا۔
اسرائیلی فوج کی طرف سے یرغمالیوں کی وصولی کے بعد اسرائیل طے شدہ تعداد میں فلسطینی خواتین قیدیوں اور بچوں کو ایک اسرائیلی یرغمالی کے بدلے 3 فلسطینی قیدی کی شرح سے رہا کرنا شروع کر دے گا۔
محدود امداد کی اجازت
معاہدے میں روزانہ 4 ٹرک ایندھن اور دو ٹرک گیس کے علاوہ خوراک، ادویات اور انسانی امداد کے 200 ٹرک جنوبی غزہ جانے دینے کی شق شامل ہے۔