اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے غزہ میں بے گناہ فلسطینیوں کے خلاف اپنی سفاکانہ جنگ جاری رکھنے کیلئے عوامی حمایت کے حصول میں ناکامی کے بعد اب پینترا بدل کر تورات کی آیات کا سہارا لینا شروع کر دیا ہے اور اسرائیلی عوام کو جنگ کی حمایت پر ابھارنے کیلئے تورات کو ہتھیار بنا لیا ہے۔
عرب میڈیا کی ایک رپورٹ کے مطابق نیتن یاہو نے گزشتہ دنوں غزہ پر سفاکانہ حملوں کا جواز حاصل کرنے کی اپنی کوششوں کے دوران ایک عوامی خطاب میں “یسعیاہ” کی پیشین گوئی کا بطور خاص ذکر کیا اور کہا کہ ہم روشنی کے بیٹے ہیں، جبکہ وہ (فلسطینی) اندھیرے کی اولاد ہیں اور روشنی اندھیرے پر فتح حاصل کرے گی۔
نیتن یاہو نے عوام کے مذہبی جذبات ابھارنے کیلئے مزید کہا کہ ہم یسعیاہ کی پیشین گوئی کو پورا کریں گے۔ اب آپ اپنی سرزمین میں پھر کسی تباہی اور نقصان کے بارے میں نہیں سنیں گے۔ ہم اپنے لوگوں کی عزت کی وجہ بنیں گے۔ ہم مل کر لڑیں گے اور ہم فتح حاصل کریں گے۔
عمالقہ کا ذکر
نیتن یاہو نے اس موقع پر ایک اور مذہبی متن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمہیں یاد رکھنا چاہیے کہ عمالقہ (حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دور کی ایک مشرک اور نہایت جابر قوم، جس کے بادشاہ کا نام قرآن میں جالوت مذکور ہے) نے تمہارے (آباء و اجداد کے) ساتھ کیا کیا، جیسا کہ ہماری مقدس کتاب ہمیں بتاتی ہے (جالوت کے لشکر کو بنی اسرائیل کے نبی حضرت داؤد علیہ السلام نے شکست دی تھی) اور ہمیں یاد ہے کہ ہم پہلے سے ان کے خلاف (فلسطینیون کو عمالقہ سے منسوب کرتے ہوئے) اپنے بہادر سپاہیوں اور ڈویژنوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔
یہودی اخلاقِ جنگ
اسرائیلی رہنما چونکہ اپنی فوج کو اخلاقیاتِ جنگ کی پابند مقدس فوج باور کرواتی ہے، جبکہ غزہ پر حالیہ جارحیت کے دوران اس کی اخلاقی اقدار کی پابندی کی قلعی کھل گئی ہے، اس لیے وہ اپنی خفت مٹانے کی خاطر غزہ کی جنگ کا جواز پیش کرنے کے لیے تورات کا سہارا لے رہے ہیں اور اسے اپنے عوام کے سامنے ایک “اخلاقی جنگ” بنا کر پیش کر رہے ہیں اور عوام کو باور کر رہے ہیں کہ جس گروہ کے خلاف وہ برسرجنگ ہیں، وہ انسانیت کا مطلب نہیں سمجھتا۔
اسرائیلی عوام کو جنگ کی حمایت پر ابھارنے کی ان کوششوں میں معروف اسرائیلی یہودی رہنما مینس فریڈمین بھی پیش پیش ہیں، وہ ‘اخلاقی جنگ’ کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “اغیار” (تمام غیر یہودی افراد) کے تمام مقدس مقامات کو تباہ کرنا، ان کے مردوں، عورتوں، بچوں اور مویشیوں تک کو مار ڈالنا یہ سب ہماری مذہبی جنگ کا حصہ ہیں۔ گویا وہ بتانا چاہتے ہیں کہ غزہ میں سویلینز کا جو کچھ نقصان ہو رہا ہے یہ سب ہمارے مذہب کی تعلیمات میں جائز ہے۔
حاخام فریڈمین کہتے ہیں یہودی مذہبی اخلاقیاتِ جنگ ہی اصل اخلاق جنگ ہیں، مغربی اخلاق جنگ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ وہ بڑی سفاکیت کے ساتھ کہتے ہیں کہ فلسطینیوں کی مزاحمت کو ختم کرنے کیلئے قتل عام ضروری ہے۔
جنگی ترانوں کیلئے بچوں کا استعمال
مذہبی بیانیے کو ہتھیار بنانے کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے جواز کیلئے بچوں کو بھی استعمال کر رہی ہے، اس سلسلے میں حال ہی میں اسرائیلی بچوں کا ایک ترانہ بڑے پیمانے پر اسرائیلی ذرائع ابلاغ پر نشر کیا جا رہا ہے، اس رجزیہ ترانے کا عنوان ہے “فاتح قوم کے بچے”، جو ایک آنجہانی اسرائیلی رہنما کے لکھے ہوئے ترانے “ایولز” کا تبدیل شدہ ورژن ہے۔
یہ ترانا بچوں کے ایک گروپ نے گایا ہے، جس میں وہ قابض فوج پر زور دیتے ہیں کہ وہ غزہ کی ہر چیز کو ختم کر دے اور اس ترانے میں فلسطینیوں کی نسل کشی کا واضح مطالبہ بھی شامل ہے۔
معروف امریکی جیو پولیٹیکل تجزیہ کار پیٹرک ہیننگسن نے اسرائیلی بچوں کے اس جنگی ترانے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکیوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ صہیونیت ایک نسل پرستانہ اور نسل کشی کا نظریہ ہے۔