حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ نے یوکرین میں روسی جنگ کے دوران طے شدہ بین الاقوامی فالٹ لائنز کو مزید گہرا کر دیا ہے۔
واشنگٹن نے تقریباً دو سال کی جانفشانی سے روس کے خلاف یوکرین کی جو حمایت کھڑی کر دی تھی، اس کی صفوں میں اب بائیڈن کی جانب سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی کھل کر حمایت کے باعث دراڑ پڑتی دکھائی دے رہی ہے۔
غزہ اور یوکرین جنگ میں کیا فرق ہے؟
روس اور اسرائیل دونوں نے بالترتیب اپنے اپنے پڑوسی علاقوں یوکرین اور غزہ پر فوجی یلغار کر رکھی ہے، تاہم دونوں واقعات کے اسباب، نتائج اور مضمرات میں نمایاں فرق موجود ہے۔
انیلا علی ٹاپ ٹرینڈ، اسرائیل کی حمایت کرنے والی پاکستانی خاتون کون ہے؟
یوکرین پر روس کا حملہ اس کے جغرافیائی سیاسی مفادات کا نتیجہ ہے۔ روس یوکرین کو ایک اسٹریٹجک بفر زون اور نیٹو کے ممکنہ اتحادی کے طور پر دیکھتا ہے اور ان دونوں صورتوں میں روس اسے اپنی سلامتی اور مفادات کے لیے خطرہ باور کرتا ہے۔
اہم فرق
ماسکو یوکرین میں بڑی تعداد میں آباد روسی آبادی کو یوکرینی تسلط سے نجات دلانے کے ساتھ بحیرہ اسود کو امریکی اثر و رسوخ سے بچانا چاہتا ہے۔ اسی پس منظر میں جمعرات 24 فروری 2022 کو روس نے یوکرین پر تین اطراف سے باقاعدہ فوجی حملہ کیا۔ اس حملے کے جواز میں روس نے دعویٰ کیا کہ وہ اپنے دفاع میں یہ کارروائی کر رہا ہے اور اس کا مقصد یوکرین میں آباد روسی بولنے والوں کے حقوق کا تحفظ ہے۔
دوسری طرف غزہ پر اسرائیل کا حملہ فلسطینی عوام کے ساتھ اس کے پون صدی سے جاری تنازع کی بنا پر ہے۔ فلسطینیوں کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ اسرائیل کو اپنی جائز سرزمین پر برطانیہ کا غیر قانونی کاشت کیا ہوا پودا اور اسرائیل کوایک قابض ریاست سمجھتے اور اپنی سرزمین کی آزادی کیلئے جدوجہد کر رہے ہیں۔
غزہ کیخلاف اسرائیل کی کارروائیاں
اسی طرح اسرائیل غزہ کو ایک دشمن علاقے کے طور پر دیکھتا ہے جس پر حماس کا کنٹرول ہے۔ اسرائیل نے پندرہ سال سے غزہ کی ناکہ بندی بھی کر رکھی ہے، جس کی بنا پر یہاں سے لوگوں اور سامان کی نقل و حرکت پر پابندی ہے۔
اسرائیل نے 2005 سے غزہ میں کئی خونریز فوجی کارروائیاں کی ہیں جن کا مقصد حماس کی طاقت کو توڑنا اور اس کے راکٹ حملوں کو روکنا ہے۔ جاری واقعات اس وقت شروع ہوئے جب حماس نے 7 اکتوبر کو مقبوضہ مغربی کنارے اور القدس میں اسرائیلی چھاپوں اور گرفتاریوں کے جواب میں اسرائیل کے اندر گھس کر کارروائی کی۔ اس جوابی کارروائی کو بہانہ بنا کر اسرائیل نے غزہ پر وحشیانہ بمباری کا آغاز کردیا، جو چالیس دن سے زائد گزرنے کے باوجود پوری وحشیت اور سفاکیت کے ساتھ آج بھی جاری ہے۔
اسرائیل کی وحشیانہ بمباری
غزہ پر اسرائیل کے حملے میں بہت زیادہ ہلاکتیں، زخمی اور تباہی ہوئی ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق 12 ہزار سے زائد شہری شہید ہوئے، جن میں سے دو تہائی خواتین اور بچے ہیں۔ غزہ کا بنیادی ڈھانچہ، جو پہلے ہی پچھلی جنگوں اور ناکہ بندی سے تباہ ہو چکا تھا، اسرائیلی بموں سے مزید تباہ ہو گیا ہے۔
اسرائیل نے غزہ کے سب سے بڑے اسپتال الشفاء کے ساتھ ساتھ رہائشی عمارتوں، پناہ گزینوں کے کیمپوں اور اسکولوں کو بھی نشانہ بنایا ہے۔ غزہ میں بجلی اور پانی کی سپلائی بری طرح متاثر ہوئی ہے جس سے 23 لاکھ افراد کی زندگیاں معطل ہیں۔
اس تنازع نے مغربی کنارے، یروشلم اور اسرائیل کے اندر بھی مظاہروں اور جھڑپوں کو جنم دیا ہے، جہاں فلسطینی شہریوں کو اسرائیلی فورسز اور بھگوڑے یہودی آباد کاروں کی جانب سے امتیازی سلوک اور تشدد کا سامنا ہے۔ عالمی برادری نے فوری جنگ بندی اور اس دیرینہ تنازع کے سیاسی حل کا مطالبہ کیا ہے لیکن وہ تا حال اسرائیل پر کوئی بامعنی دباؤ ڈالنے میں ناکام ہے۔
یوکرین پر روسی حملے کے یورپ اور مغرب کی بالادستی پر مبنی عالمی نظام کے مستقبل پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملہ یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی قانون اور اصولوں کی بھی خلاف ورزی ہے، جبکہ غزہ پر اسرائیلی حملہ فلسطینی عوام کے انسانی حقوق کے ساتھ مشرق وسطیٰ میں منصفانہ اور دیرپا امن کے امکانات پر بھی سنگین اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے قبضے، جبر اور جارحیت سے بچانے میں عالمی برادری کی ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔
غزہ جنگ اور مغرب کی منافقت
غزہ جنگ مغربی طاقتوں کی منافقت اور دوہرے معیار کو بھی بے نقاب کر رہی ہے، جنہوں نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی، لیکن غزہ پر اسرائیل کے حملے کا دفاع کیا ہے یا اسے نظر انداز کیا ہے۔
یہ رویہ فلسطینیوں کے غصے اور مایوسی کو ہوا دیتا ہے، جو کئی دہائیوں سے اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ اس سے حماس کی پوزیشن اور مقبولیت کو بھی تقویت ملتی ہے، جس نے اسرائیل کے حملوں کے خلاف مزاحمت کی ہے اور اسرائیلی شہروں پر راکٹ فائر کیے ہیں، جبکہ فلسطینی اتھارٹی کی پوزیشن اور ساکھ کو کمزور کیا ہے، جو تشدد کو روکنے یا کوئی ٹھوس نتائج دینے میں ناکام رہی ہے۔
اسرائیلی حملے تشدد کو فروغ دینگے
اسرائیل کے وحشیانہ حملے مزید تشدد اور انتہا پسندی کے امکانات کو بھی بڑھانے کا سبب بنیں گے، کیونکہ ان کے نتیجے میں مسئلہ فلسطین کے دو ریاستی فارمولے پر عمل در آمد کا امکان معدوم ہوتا جا رہا ہے۔