اسرائیل کا اصل نام کیا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
امریکا کا یومِ قیامت طیارہ حرکت میں آگیا۔ دنیا پر خوف طاری
Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

حالیہ دنوں عالم عرب کے سوشل میڈیا پر فلسطینی کاز کے حامی کارکنان ایسی پوسٹس کر رہے ہیں، جن میں فلسطین کے ان قدیم اور تاریخی شہروں کے اصل ناموں کو سامنے لا رہے ہیں، جنہیں اسرائیل نے تبدیل کر دیا ہے۔

اس مقصد کیلئے ہیش ٹیگ کے ساتھ “#مااسمھا؟” یعنی “اس کا نام کیا ہے؟” کا عنوان استعمال کیا جا رہا ہے، اس سلسلے میں ایک عرب خاتون ایکٹوسٹ نے بھی ایک ویڈیو پوسٹ کی ہے جو بہت وائرل ہے۔

اس ویڈیو میں خاتون کارکن یروشلم اور تل ابیب سے لیکر اشکلون  تک کے اصل عربی اور اسلامی نام بتاتی ہیں اور آخر میں پوچھتی ہیں: اسرائیل کا اصل نام کیا ہے؟ پھر نہایت دلچسپ اور اداس انداز میں جواب دیتی نظر آتی ہیں: فلسطین۔

“اس کا نام کیا ہے؟”

عرب سوشل میڈیا پر “اس کا نام کیا ہے؟” (مااسمھا؟) کے عنوان سے شروع کی گئی مہم کا مقصد فلسطین کے متعلق آگہی پھیلانا ہے اور لوگوں کو فلسطینی علاقوں کے اصل نام یاد دلانا ہے جنہیں اسرائیل نے کئی سال پہلے تبدیل کیا تھا۔

فلسطینیوں سے اظہار یکجتہی میں تربوز کا حیران کن کردار جانئے

عرب خاتون ایکٹوسٹ نے اپنی ویڈیو میں ایسے کئی شہروں کے ناموں کے متعلق دلچسپ معلومات فراہم کی ہیں۔

خاتون بتاتی ہیں کہ ’ایلات‘ کا اصل نام “ام الرشراش” تھا جبکہ تل ابیب کو “الشیخ مونس گاؤں/یافا” کہا جاتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ القدس کو اسرائیلیوں نے یروشلم نام دیا۔ بئر شیفاع کو “بئر سبع ” کہا جاتا تھا۔ نتانیا “ام خالد” تھا۔ عکو کا اصل نام “عکا” تھا۔ موکریات شمونہ کا “الخالصہ”، تسرفین کو “صرفند” اور یزرعیل کا اصل نام “زرعین” ہے۔

ویڈیو میں بتایا گیا ہے کہ تزیپوری کا نام “صفوریہ” ہے۔ احیھود کو “البروہ” کہا جاتا تھا۔ شوکت جنکشن کا نام “المسمیہ” ہے۔ اشکلون “عسقلان ” تھا۔ یہیں اسلام کے ایک بڑے امام امام شافعی پیدا ہوئے۔ “کریات جات” کا نام عراق المنشیہ تھا، کریم شالوم کو “کرم ابو سالم” کہا جاتا تھا۔  اللود کا اصل نام “لد” تھا۔ بیت شیمش بیت الشمس تھا جو القدس کے نواح میں موجود ایک قصبہ ہے۔ بیت جیمل کا اصل نام دیر جمال تھا اور زخریا کا پرانا نام زکریا گاؤں گا۔

یہ مہم اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں 39 دنوں سے زائد عرصے سے مسلط کی گئی فوجی کارروائی کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔

رائے عامہ کے ایک جائزے میں اسرائیل میں عوامی حلقوں کی طرف سے نیتن یاھو کی مقبولیت کے ختم ہونے کے اشارے ملے ہیں۔

Related Posts