غزہ جنگ کے اوزار اب صرف بالمشافہ لڑائی کے ہتھیاروں تک محدود نہیں رہے بلکہ اس جنگ کے سازوسامان میں اب ورچوئل میدان کے پلیٹ فارم بھی شامل ہوگئے ہیں، جہاں فلسطینی سامنے آکر بڑی کامیابی سے غزہ کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
غزہ جنگ نہ صرف فلسطینیوں اور عربوں کی توجہ کا مرکز ہے بلکہ یہ عرب دنیا اور اس سے باہر بھی بڑے پیمانے پر توجہ حاصل کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس جنگ کی کوریج کرنے والوں کے فالورز میں راتوں رات لاکھوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
گم نامی کے اندھیروں سے اٹھ کر ورچوئل میدان میں اپنی حق کی جنگ کامیابی سے لڑ کر شہرت کی بلندیوں تک پہنچنے والے ہیرز میں کئی فلسطینی مرد اور خواتین شامل ہیں۔ غزہ کی پٹی میں محصور فلسطینیوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر تقریباً روزانہ کی بنیاد پر اسرائیلی فضائی حملوں اور زمینی حملے کے دوران زندگی کی ہولناکیوں کے مناظر شیئر کرنا شروع کیے ہیں۔
‘ہیومین اے آئی پن’ نامی ڈیوائس کیا ہے اور یہ موبائل فون کی موجودہ شکل کا کیسے خاتمہ کرے گا؟
یہ واقعات اور مناظر موبائل فون کو استعمال کرتے ریکارڈ کیے جاتے ہیں۔ ان مناظر کی بڑی تعداد انسٹا گرام پر دیکھی جا سکتی ہے جہاں میدان جنگ کا منظر ہے اور یہ جنگ غزہ کے یہ ورچوئل سپاہی بڑی کامیابی سے جیت رہے ہیں۔
چونکہ اسرائیل آزاد میڈیا کو غزہ میں داخل ہونے سے روکتا ہے، اس لیے فلسطینی اس خلا کو پر کرنے کیلئے اپنے طور پر مناظر کو انٹرنیٹ پر پوسٹ کرتے ہیں۔ ان مناظر میں اسرائیلی بمباری، خوراک اور پانی کی کمی، تباہی، موت اور خون ایسے مناظر ہیں جو لاکھوں فالورز کو متوجہ کرتے ہیں۔
معتز عزایزہ کی شہرت
7 اکتوبر کو جب معتز عزایزہ سوئے تو صبح کے چار بجے تھے۔ 24 سالہ نوجوان اقوام متحدہ کی ایک ایجنسی کے لیے دیر تک ویڈیو ایڈٹنگ کا کام کرتا رہا جہاں وہ پارٹ ٹائم پروڈیوسر کے طور پر کام کر رہا تھا۔
دو گھنٹے بعد وہ دھماکوں کی آواز سے بیدار ہوا تو وہ اپنے اوپر میزائلوں کا ایک بیراج دیکھنے کے لیے اپنے گھر کی چھت پر بھاگا۔
کوئی انتباہ نہیں تھا اور نہ ہی فائرنگ کا کوئی تبادلہ ہوا تھا جو عام طور پر ایک مکمل جنگ کی نشاندہی کرتا ہے۔ جب وہ سویا تو اس وقت حماس نےجنگ شروع کردی تھی۔
حماس کے سپاہیوں نے غزہ کو اسرائیل سے الگ کرنے والی رکاوٹیں توڑ دیں اور اسرائیلی فوجیوں اور قریبی آبادیوں کے رہائشیوں پر حملہ کردیا۔
اسرائیلی حکام نے بتایا کہ تقریباً 240 افراد کو حماس کے سپاہی اپنے ساتھ لے گئے۔ اسرائیل میں تقریباً 1400 افراد مارے گئے جن میں زیادہ تر عام شہری اور سینکڑوں فوجی تھے۔
جواب میں اسرائیل نے حماس کے خلاف مکمل جنگ شروع کی۔ عزایز اور 20 لاکھ دیگر افراد غزہ میں بمباری میں پھنس گئے۔
ان حالات میں عزایزہ اپنا کیمرا پکڑ کر افراتفری کی دنیا میں چلا گیا۔ اس نے مسلح فلسطینی مردوں کو اسرائیلی فوجی جیپ میں تین قیدیوں کے ساتھ گزرتے دیکھا، جن میں سے دو فوجی وردی پہنے ہوئے تھے اور ان کے سامنے رہائشی پریڈ کر رہے تھے۔
اس نے اس منظر کو فلمایا اور اس ویڈیو کو اپنے اس وقت کے 24,000 انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کیا، اس کے بعد تو گویا ان کا یہی مشغلہ بن گیا، اب وہ مسلسل غزہ کے حالات کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے دنیا کو دکھانے کا فرض انجام دیتا ہے اور بتاتا ہے کہ اسرائیل کتنی تباہی پھیلا رہا ہے۔
ہند الخضری
جب ہند الخضری غزہ سٹی کے ایک ہسپتال میں زخمیوں اور شہداء کی آمد کی اطلاع دینے کے لیے جنگ کے اوائل میں اپنے گھر سے نکلی تو اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہ آخری بار ہوگا۔
جب وہ مشن پر تھیں اسرائیل نے شمالی غزہ سے مکینوں کو نکلنے کا حکم دیا اور اس کا خاندان جنوب کی طرف بھاگنے والے لاکھوں فلسطینیوں میں شامل ہو گیا۔
تاہم 28 سالہ خُضری جنگ کو فلمانے کے لیے ٹھہری رہیں، لیکن اس کے پڑوس میں بمباری کے بعد وہ اپنے گھر واپس نہیں جا سکیں۔
بڑھتی ہوئی ہلاکتوں کی خبروں سے تھک کر وہ روانی سے انگریزی میں رپورٹ کرتی ہے۔ وہ اکثر حملوں کے مقام پر موجود چند رپورٹرز میں سے ایک ہیں جو تباہی کے لامتناہی مناظر کو فلما کر دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ غزہ میں کوئی آگے یا پیچھے لائن نہیں ہے۔ یہ سب فرنٹ لائن پر ہے۔
نور حرازین
جنگ کے ایک ماہ بعد بھی نور حرازین ابھی تک یہ نہیں سمجھ پا رہیں کہ 7 اکتوبر کو کیا ہوا تھا۔
ایک رات پہلے وہ بحیرہ روم کےساحل پر ایک ہوٹل میں دوستوں کی مجلس سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ بعد میں اس نے اپنے جڑواں بچوں سارہ اور بسام 5 کو ان کے ہوم ورک میں مدد کی اور انہیں سونے کے لیے گلے لگایا۔
اس نے اپنے شوہر اور جڑواں بچوں کے ساتھ جنوب کی طرف بھاگنے کا مشکل فیصلہ کیا تاہم اس کے والدین نے دوسرے نکبہ کے خوف سے سات لاکھ کے اس قافلے میں گھر چھوڑنے سے انکار کردیا۔
اس نے کہا کہ سب سے بری چیز آپ کی عزت کو کھونا ہے، میں نے اپنے بچوں کو گلے لگایا اور انہیں کمبل اور تکیوں سے گاڑی میں دھکیل دیا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوگا۔
وہ اب بھی جنگ کے بارے میں اپ ڈیٹس رپورٹنگ اور تصاویر و ویڈیوز شائع کر رہی ہیں۔
انسٹا گرام پر یہ وہ چند ورچوئل واریئرز ہیں جو بڑی ہمت اور پرکاری سے غزہ کی اصل صورتحال کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں جس سے قابض اسرائیل کا خوفناک چہرہ عیاں اور بے نقاب ہو رہا ہے۔