حماس نے غزہ میں یرغمالیوں کی رہائی کو اسرائیل کی جانب سے جنگ بندی سے مشروط کر دیا۔
اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ زمینی حملے کی تیاری کر رہا ہے، لیکن امریکہ اور عرب ممالک کی طرف سے اس پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ایسے آپریشن سے گریز کرے، جس سے فلسطینیوں کی شہادتوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے اور بڑا تنازعہ کھڑا ہوسکتا ہے۔
غزہ جنگ شروع ہونے کے بعد سے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے امریکی افواج پر حملوں کے جواب میں دو امریکی لڑاکا طیاروں نے جمعہ کے روز شام میں ہتھیاروں اور گولہ بارود کی تنصیبات کو نشانہ بنایا۔
نصف اسرائیلیوں کا ماننا ہے کہ اسرائیل کو زمینی حملہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حماس کے پاس کم سے کم 224 یرغمالی موجود ہیں۔
روسی اخبار نے ماسکو کا دورہ کرنے والے حماس کے وفد کے ایک رکن کے حوالے سے کہا ہے کہ 7 اکتوبر کو حماس کے حملے میں مختلف فلسطینی دھڑوں کے ہاتھوں اغوا کیے گئے تمام افراد کو تلاش کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
ابو حامد کا کہنا تھا کہ انہوں نے درجنوں لوگوں کو یرغمال بنایا تھا، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے، اور ہمیں انہیں غزہ کی پٹی میں ڈھونڈنے اور پھر رہا کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس، جس نے اب تک چار یرغمالیوں کو رہا کیا ہے، واضح کر دیا ہے کہ وہ ”شہری قیدیوں ” کو رہا کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔
لیکن اس کے لیے ایک ”پرسکون ماحول” کی ضرورت ہے، انہوں نے اس دعوے کو دہراتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی بمباری میں گرفتار افراد میں سے 50 افراد اسرائیلی بمباری سے ہلاک ہو گئے تھے۔