ملک میں مہنگائی اور گرانی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ ایک طرف لوگوں کے کاروبار ٹھپ ہو کر رہ گئے ہیں، دوسری طرف عوام کیلئے ضروریات زندگی پوری کرنا جوئے شِیر لانے کے مترادف ہوکر رہ گیا ہے۔
ایسے میں لوگ زندگی کی گاڑی کھینچنے کیلئے مختلف طریقے اختیار کر رہے ہیں، جن میں سے بعض بڑے منفرد اور دلچسپ ہونے کے ساتھ متعلقہ افراد کی ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کے بھی غماز ہوتے ہیں۔
کراچی کے ایک بزرگ شہری نے بھی بے لگام مہنگائی اور بجلی و گیس کے بھاری بلوں سے جان چھڑانے کیلئے بہت منفرد طریقہ اختیار کیا ہے۔
یہ ہیں کراچی کے علاقے پاک کالونی کے بزرگ شہری حبیب عرف ملنگ جو اٹھارا سال سے ڈرائیونگ کی نوکری کرتے ہیں، تاہم ان کی محدود اور قلیل تنخواہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کا ساتھ نہ دے پائی تو انہوں نے بھاری اخراجات سے جان چھڑانے کیلئے گھر سے ہی جان چھڑا لی اور ملیر ندی کے کنارے ایک درخت کو گھر بنالیا۔
حبیب عرف ملنگ کے مطابق ان کی ماہانہ آمدن 20 سے 25 ہزار روپے ہے، ان کے بقول اس آمدن میں پہلے کچھ گزارہ ہوجاتا تھا، مگر پھر مہنگائی اس قدر بڑھ گئی کہ اس تنخواہ میں گھر کے اخراجات پورے کرنا ان کیلئے ناممکن ہوکر رہ گیا، جس کے بعد انہوں نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس درخت پر ہی رین بسیرا کرلیا۔
حبیب کا کہنا ہے کہ وہ دن بھر اپنا کام کرکے شام کو اس ٹھکانے پر آجاتے ہیں اور یہاں 12 گھنٹے آرام کرتے ہیں۔ حبیب ملنگ کا کہنا ہے کہ اب اللہ کا شکر ہے کہ اسے بجلی کے بل کی ٹینشن ہے اور نہ دوسرے اخراجات کی۔ پانی کی ضرورت وہ قریبی نلکوں سے پوری کرلیتے ہیں اور سکون سے اپنے “درخت گھر” میں رہتے ہیں۔
حبیب ملنگ کے اس منفرد طرز بود و باش کو لوگ بڑی حیرت سے دیکھتے ہیں، بالخصوص علاقے کے بچے ان کی موجودگی میں ہر وقت یہاں جمگھٹا لگائے رکھتے ہیں۔ حبیب ملنگ بھی ان بچوں کے ساتھ اٹھکھیلیاں کرکے وقت گزارتے ہیں۔
حبیب عرف ملنگ نے اپنے “درخت گھر” کے آس پاس پھول پودے بھی اگائے ہوئے ہیں اور بڑی لگن سے ان کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ انہوں نے درخت پر مضبوط جال باندھ کر رہنے کا انتظام کر رکھا ہے، ان کا دعویٰ ہے کہ اس ٹھکانے پر بیک وقت تیس سے پچاس افراد آرام سے لیٹ سکتے ہیں۔