پاکستان دو قومی نظرئیے کی بنیاد پر 1947 میں معرضِ وجود میں آیا تو اس کے ساتھ ہی ہمسایہ ملک بھارت نے ہم پر حملے کیے اور جموں و کشمیر پر قبضہ کرلیا جسے آج تک ہم آزاد نہیں کرواسکے۔
دوسری جانب اسرائیل مقبوضہ فلسطین کے علاقوں کو یہودی بستیاں بنا بنا کر معرضِ وجود میں آیا جس کے قیام کو پاکستان اپنے اصولی مؤقف کے تحت مسترد کرتا آیا ہے، تاہم پاکستان پر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔
یہ عالمی دباؤ ہم سے ایک بات منوانا چاہتا ہے کہ کسی طرح اسرائیل کے وجود کو تسلیم کر لیا جائے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو بہت سے ایسے فوائد حاصل ہوسکتے ہیں جو اس کی معیشت کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔
تاہم پاکستان کا مؤقف محض معیشت کے باعث تبدیل نہیں ہوسکتا۔ حال ہی میں پاکستان کے مؤقف کو واضح کرتے ہوئے نگران وزیرِ خارجہ جلیل عباس جیلانی نے کہا کہ پاکستان اپنے اور فلسطینی عوام کے مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہی کوئی فیصلہ کرے گا۔
قبل ازیں اسرائیلی وزیر خارجہ ایلی کوہن نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کے متعلق کاوشوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کے اسرائیل کو تسلیم کرتے ہی 6 یا 7 ممالک اسرائیل کو تسلیم کرلیں گے، تاہم جان بوجھ کر ان ممالک کا نام نہیں لیا گیا۔
اسلام کو اپنی معاشرت و ثقافت کی بنیاد بنانے والا پاکستان اسلامی جمہوریہ کہلاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اسلامی شریعت پر عمل پیرا ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کی سب سے بڑی وجہ اس کا بیت المقدس پر قبضہ ہے جو مسلمانوں کا قبلۂ اوّل ہے۔
کعبۃ اللہ سے قبل مسلمان بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز پڑھا کرتے تھے اور آج کل ہم جو نماز پڑھتے ہیں، اس کیلئے رخ مکہ مکرمہ کی جانب کیاجاتا ہے جہاں روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کا سب سے پہلا اور سب سے مقدس گھر یعنی کعبۃ اللہ موجود ہے۔
سفارتی سطح پر دیکھیں تو اسرائیل کو تسلیم کرنے سے پاکستان کو اسرائیل کی ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی پر مبنی مصنوعات تک رسائی مل سکتی ہے، پاکستان علاقائی امن و استحکام کیلئے پہلے سے زیادہ بہتر کام کرسکتا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف دہائیوں سے برسر پیکار پاکستانی قوم کو اس سے نجات مل سکتی ہے۔ مسئلۂ کشمیر و فلسطین کے حل کی راہ ہموار کرنے کیلئے بھارت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی قیادت سے بھی ون ٹو ون بات کی جاسکتی ہے۔
توانائی کے شعبے میں پاکستان کو ایک بڑے بحران کا سامنا ہے جبکہ اسرائیل نے قابلِ تجدید توانائی کے ذرائع پر کافی کام کیا ہے اور دونوں ممالک کے مابین اس سطح پر تعاون سے پاکستان کو خاطرخواہ فوائد حاصل ہوسکتے ہیں۔
عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی شدت پسندی اور اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کیلئے پاک اسرائیل تعاون کا کردار اہم ہوسکتا ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان جس مقام پر کھڑا ہے، اسرائیل کو تسلیم کرنے سے مغرب سمیت دیگر طاقتیں جو اسرائیل کی حامی ہیں پاکستان کا ساتھ دینے لگیں گی۔
ثقافتی اور تعلیمی وفود کے تبادلوں سے پاک اسرائیل تعلقات کو مزید فروغ دیا جاسکتا ہے۔ سکیورٹی اور تعلیم و صحت سمیت دیگر شعبہ جات میں باہمی تعاون دونوں ممالک کیلئے مفید ثابت ہوسکتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔
عالمی امور کے ماہرین خوب جانتے ہیں کہ اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرلے تو اسے مزید کیا کیا فوائد حاصل ہوسکتے ہیں تاہم پاکستان کا مسئلہ فوائد کا حصول نہیں ہے بلکہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہ کرکے دراصل فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔
ہم اسرائیل پر یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستان کسی مالی منفعت کیلئے اسرائیل کو تسلیم کرکے اپنے قومی فکر و فلسفے سے دستبردار ہونے کے حق میں نہیں، چاہے اس کیلئے ہمیں کتنی ہی قیمت کیوں نہ دینی پڑ جائے اور گزشتہ کچھ دہائیوں سے ہم اس قیمت کی ادائیگی کرتے بھی چلے آرہے ہیں۔