دہلی جہاں جی 20 ممالک کے سربراہانِ مملکت کا اجلاس ہونے جارہا ہے، وہاں سے صرف 70 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک مسلم اکثریتی ضلعے میں شہریوں کو شکایت ہے کہ انہیں پولیس کی جانب سے ’انتقامی کارروائی‘ کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کئی مقامی مسلمان شہریوں نے اس تاثر کی تائید کی ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق انتظامیہ اور حکومت سب جانتے ہیں کہ فسادکس نے کیا ہے، کون کر کے گیا ہے اور سزا کون بھگت رہا ہے؟‘
بجرنگ دل کی ریلی اور ہنگامہ
فسادات کے دوران سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر ایک پوسٹ بھی کی گئی جس میں بجرنگ دل نامی تنظیم کے جلسے میں ایک مقامی لیڈر ہجوم کو قائل کر رہا ہے کہ علاقے میں کسی ’نائی‘ کی دکان نہیں ہونی چاہیے۔ تاہم بجرنگ دل نے ان فسادات میں ملوث ہونے سے انکار کیا ہے۔
اس کے بعد میوات کی مسلمان آبادی کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا جس سے میوات کے مسلمان شہریوں کو لاکھوں روپے کا نقصان ہوا۔
میوات کے مسلمان خاندانوں کی اکثریت متمول تھی اور مقامی سطح پر کاروبار اور مارکیٹیں انہی کی ملکیت تھیں۔ لیکن اب ان کی تمام جمع پونجی تباہ ہو چکی ہے۔
حاجی شریف بھی میوات کے بڑے کاروباری مسلمان شخصیات میں سے ایک تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ بھاٹیہ کوچنگ سینٹر تھا میرا۔ ایک ریستوران تھا۔ ایک پیزا کی دکان تھی۔ ایک سیلون تھا۔ ایک سروس سٹیشن ہے۔ ایک میڈیکل لیب تھی۔ سب میں پیسہ لگا ہوا ہے۔ کوچنگ سینٹر میں ایک ایک پروجیکٹر 65، 70 لاکھ روپے کا لگا ہوا ہے۔ دو سیٹیلائیٹ ریسیور رکھے ہوئے تھے وہاں اڑھائی اڑھائی لاکھ روپے کے۔ تو تھوڑا پیسہ تو نہیں لگا ہوا تھا۔‘حاجی شریف کی یہ تمام املاک اب تباہ ہو چکی ہیں۔
محمد عارف کے ساتھ بھی ایسا ہی معاملہ پیش آیا۔ میوات کے کاروباری علاقے میڈیکل گیٹ پر واقع 45 دکانوں میں سے 22 ان کی ملکیت تھیں۔
عارف نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کی 22 دکانیں ’ختم کر دی گئیں۔ کمانے کا جو نظام تھا۔ سارا انہوں نے صفر کر دیا ہے۔ بالکل فٹ پاتھ پر لے آئے ہیں۔ ایسے ہی سب کے ساتھ ہوا۔ بالکل نل بٹہ سناٹا ہو گیا ہے۔ زمین بیچ کر دکانوں میں پیسہ لگایا تھا۔ اب بتائیں کیا کریں؟‘
میوات کی ایک مذہبی شخصیت مولانا حکیم الدین نے اس صورت حال کو خوفناک قرار دیتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’مسلم آبادی کو سہما دیا گیا ہے۔ یہ سہمے ہوئے ہیں۔ ایک طرح کا خوف ہے کہ رہنا یہیں ہے۔ کھانا کمانا یہاں ہے۔ لیکن مایوسی کے ماحول میں رہ کر کھانا کمانا کیسے ہو سکتا ہے؟‘
اس خوف کی تصدیق ایک اور مسلمان شہری محمد حنیف نے بھی کی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’ہمیں زمین بیچنی پڑ سکتی ہے۔ اب تک تو نہیں بکی۔ لیکن آگے اپنے کام کروانے کے لیے یا بچوں کو چھڑانے کے لیے تو زمین بیچنی پڑے گی۔‘
فسادات کے بعد مبینہ انتقامی کارروائیاں
واضح رہے کہ ہریانہ پولیس نے تسلیم کیا ہے کہ دنگوں کے بعد گرفتار ہونے والوں کی اکثریت مسلمان شہریوں کی ہے۔
ہریانہ پولیس کے ایک سینیئر افسر نے بھارتی اخبار دی پرنٹ کو نام ظاہر نہ کیے بغیر بتایا کہ ’ہاں گرفتاریوں کی تعداد 170 سے زائد ہے۔ زیادہ تر ملزمان مسلمان ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ تشدد میں شامل ہندوؤں کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔‘
میوات کے نواحی علاقے نوح، جو دنگوں سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے، کے ایس پی نریندر بجرنیا نے ’مسلمانوں کے خلاف متعصبانہ کارروائی‘ کے الزامات کو ’مسترد‘ کر دیا اور کہا کہ ’تمام گرفتاریاں ثبوتوں کی بنیاد پر ہوئی ہیں۔ گرفتاری سے قبل لوگوں کی تاریخ پیدائش بھی چیک کی گئی۔‘
تاہم مسلمان شہریوں کا موقف ہے کہ گرفتاریوں کا جواز دنگوں کے وقت کی موبائل لوکیشن کو بنایا جارہا ہے۔