بھارت میں انسانیت کی تذلیل عروج پر

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہندوستان صدیوں سے علم و ادب کا گہورا رہا ہے، جس وقت یورپ میں نہانے کو کفر سمجھا جاتا تھا اور انسانیت کی تذلیل عام تھی اس وقت ہندوستان مسلمان حکمرانوں کی زیرقیادت پوری دنیا میں تہذیب و تمدن کی مثالیں قائم کررہا تھا۔

انگریز کے تسلط کے کچھ عرصے کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوؤں کیلئے الگ ریاست کے قیام کی تحاریک کو اس وقت کے بعض دانشوروں نے تنقید کا نشانہ بنایا لیکن آج ایک بار پھر بھارت کے حالات دیکھ کر تقسیم ہندوستان کے فیصلے کو نہ سراہنا سراسر زیادتی ہوگی۔

بھارت میں مسلمان، سکھ، مسیحی، بدھ مت، جین اور دیگر اقلیتوں کے علاوہ نچلی ذات کے ہندوؤں کا ناطقہ بھی بند ہے جس کی وجہ سے ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی سیکولر ریاست کا دعویدار بھارت اپنی تباہی کے دہانے پر ہے اور ریاست منی پور میں مئی سے جاری فسادات نے بھارت کو اقوام عالم میں ایک بار پھر رسوا کردیا ہے۔

سیکولر اور روشن خیالی کے دعوے کرنے والے بھارت میں آج بھی ذات پات اور مذہب کے نام پر معاشرے کو تقسیم کیا جاتا ہے، زمانہ قدیم میں ہندو معاشرے کو چار ذاتوں میں تقسیم کیا گیا۔

پہلا مذہبی گروہ برہمن، جو علم اور مذہب کے محافظ تھے۔ دوم چھتری یا کھتری جو دنیاوی امور کے محافظ تھے۔ سوم ویش جو زراعت یا تجارت سے دولت پیدا کرتے تھے۔ چہارم شودر جو خدمت کرنے کے لیے مخصوص تھے۔ ان سب کی پیشوں کے لحاظ سے آگے متعدد کئی قسمیں ہوگئیں۔

نتیجہ یہ ہوا کہ ہندوؤں میں اچھوت اور دیگر قومیں وجود میں آئیں جن کی زندگی اب بھی باوجود علم کے نہایت تلخ گزرتی ہے اور عام انسانی حقوق تک سے ان کومحروم رکھا جاتا ہے۔ ذات پات کا نظام ہندوستان کے سوا اور کسی ملک یا معاشرے میں نہیں پایا جاتا اور بھارت میں شورش اور کشیدگی کی اہم وجوہات میں ذات پات کا عنصر نمایاں ہے۔

منی پور میں خواتین کو برہنہ کرکے پریڈ کروانے کے واقعے نے ایک بار پھر بھارت کے چہرے سے نقاب اتاردیا ہے۔ جموں و کشمیر میں مسلمان خواتین پر جبر و تعدی، ظلم و ستم اور جنسی تشدد کا سلسلہ تو برسہا برس سے جاری ہے لیکن چند ماہ سے منی پور میں ہونیوالے انسانیت سوز واقعات نے بھارت کے مکروہ چہرے کو مزید کراہیت انگیز بنادیا ہے۔

منی پور میں ہونیوالے فسادات میں نچلی ذات کے ہندو جنہیں اعلیٰ ذات کے ہندو بھی ہندو ماننے کو تیار نہیں انہوں نے بھی اقلیتوں کا جینا محال کررکھا ہے، مئی سے جاری انسانیت سوز واقعات میں 150 سے زیادہ بے گناہ مسیحی انتہا پسند ہندوؤں کی بربریت کا نشانہ بن کر موت کی وادی میں اتر چکے ہیں۔

منی پور میں نچلی ذات کی ہندو برادری میٹی کے شرپسندوں نے کوکی قبائل کے مسیحیوں کی زندگی اجیرن کررکھی ہے، ڈیڑھ سو کے قریب مسیحیوں کے قتل کے علاوہ کئی گرجا گھر اور مسیحیوں کی املاک تباہ کی جاچکی ہیں اور خواتین کی تذلیل کے انتہائی شرمناک واقعات دیکھنے میں آئے ہیں۔

اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق 4 مئی کو تھوبل میں کوکی زومی برادری کی خواتین کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، میٹی قبائل کے شرپسندوں نے مسیحی خواتین کو برہنہ کرکے گھمایا، ان کی تذلیل کی اور سرعام جنسی تشدد بھی کیا گیا جس کی کسی اور معاشرے میں مثال نہیں ملتی۔ منی پور میں نسلی فسادات کے دوران دو خواتین کو برہنہ کرکے سر عام پریڈ کروانے کی وائرل ویڈیو نے انسانیت کو بھی شرمادیا ہے۔

اقوام متحدہ کے کئی کنونشنز، پی ٹیز اور ڈیکلریشنز میں انسانیت کی تذلیل کے حوالے سے قوانین موجود ہیں جبکہ انٹرنیشنل ڈیکلریشن آف ہیومن رائٹس میں بھی انسانی وقار کو اعلیٰ مقام حاصل ہے لیکن آر آر ایس کے زیرسایہ ہندو توا کے نشے میں چور بھارتی قیادت صرف چند مخصوص ہندو طبقات کے علاوہ کسی اور رنگ، نسل اور مذہب کے لوگوں کو انسان تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔

مرکز میں مودی حکومت کی آشیر باد سے آر ایس ایس کے شدت پسندوں کی بھارت میں مسلمانوں کو جے شری رام کے نعرے لگانے کیلئے تشدد اور مسلمانوں کیلئے عرصہ حیات تنگ کرنے کی کارروائیوں کا سلسلہ تو برسوں سے جاری ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ نچلی ذات کے ہندوؤں کیلئے بھی بھارت میں کوئی گنجائش نہیں ہے، کئی جگہوں پر نچلی ذات کے ہندوؤں کو مندروں میں پوجا پاٹ اور دیگر رسومات کی بھی اجازت نہیں ملتی۔

بھارت میں انسانیت سوز مظالم کی صدائیں اقوام عالم کے کانوں تک پہنچنا شروع ہوچکی ہیں، منی پور میں نسلی فسادات اور انسانیت کی تذلیل پر یورپی پارلیمان میں قرارداد منظور ہوچکی ہے لیکن حیرت اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ بھارت ان انسانیت سوز واقعات پر شرمندہ ہونے کے بجائے اقوام عالم کو آنکھیں دکھا رہا ہے۔

بھارت جہاں ایک طرف انسانیت کی تذلیل کی نئی داستانیں رقم کررہا ہے وہیں سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت لے کر ویٹو پاور کے ذریعے بدمعاشی کا لائسنس حاصل کرنے کے خواب دیکھ رہا ہے تاہم اس وقت بھارت میں جو حالات پیدا ہورہے ہیں اس میں بھارت کا انجام زیادہ دور دکھائی نہیں دیتا۔

جموں و کشمیر کے مظلوم مسلمان ہی نہیں بلکہ طاقتور سکھ، بے بس مسیحی اور کچلے ہوئے ہندو طبقات بھی بھارت میں آزادی کی تحاریک میں سرگرم عمل ہیں، کشمیر اور خالصتان کی تحاریک پوری دنیا میں اپنا اثر چھوڑ رہی ہیں جبکہ مسیحیوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں پر مظالم بھی اقوام عالم کے نزدیک اہمیت اختیار کرتے جارہے ہیں۔

آر ایس ایس کی اکھنڈ بھارت اور ہندو توا کی خواہش نے بھارت کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور جلد یا بدیر بھارت اپنے بچھائے نفرت کے جال میں خود بری طرح الجھ کر اندرونی خلفشار میں ایسا گرے گا کہ ناصرف مسلمان بلکہ سکھ، مسیحی اور نچلی ذاتوں کے ہندو بھی ایک آواز ہوکر ریاست کیخلاف اٹھ کھڑے ہونگے اور اکھنڈ بھارت کے منصوبے کو خاک میں ملادینگے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور تمام ممالک منی پور میں ہونیوالے انسانیت سوز واقعات کا نوٹس لیں اور بھارت میں بڑھتی ہوئی نفرت کو روکنے کیلئے کردار ادا کریں کیونکہ اگر اب بھی اقوام عالم نے بھارت کی ہٹ دھرمی پر اپنا کردار ادا نہ کیا تو خدا نخواستہ ایسا انسانی بحران جنم لے سکتا ہے جو پوری دنیا کیلئے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔

Related Posts