انسانیت، قدرتی آفات اور جنگ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

خرد کی زبان سے قدرتی آفات پر انسان کا سب سے بڑا دشمن ہونے کا الزام بارہا سنا ہوگا۔ اور یہ بھی دیکھا ہوگا کہ جب یہ الزام گونجتا ہے تو سننے والے پورے جوش و خروش کے ساتھ اس کی تصدیق میں سر ہلاتے نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر اصل حقیقت دیکھی جائے تو روح کانپ اُٹھتی ہے۔ چھ بڑی قدرتی آفات ، قحط، سیلاب، طوفان، زلزلہ، سونامی اور گرمی نے انسانی تاریخ میں جو بڑی تباہیاں مچائی ہیں اگر ان کے مجموعی عدد کو دیکھیں تو 10 کروڑ 28 لاکھ انسانی جانوں کا ضیاع ان کے گلے پڑتا ہے، جبکہ تاریخ کی صرف بڑی جنگوں اور قتلِ عام کے اعداد شمار جمع کئے جائیں تو حضرتِ انسان نے صرف ان دو قسم کے واقعات میں 58 کروڑ 64 لاکھ قتل کئے ہیں۔

چلئے جانبداری سے کام لیتے ہیں اور انسان کو ایک بڑی رعایت دیتے ہوئے تاریخ کے سب سے بڑے نیم قدرتی قاتل وبائی امراض کا گوشوارہ طلب کرتے ہیں۔ وبائی امراض نے اپنے دس بڑے حملوں میں 24 کروڑ 75 لاکھ لوگ قتل کئے ہیں۔ اب ان سات بڑے قدرتی قاتلوں کا مجموعی عدد 35 کروڑ تین لاکھ قتل بنتا ہے جو انسان کے جنگی کارناموں سے اب بھی 23 کروڑ 61 لاکھ کم ہے۔ پھر اس بات کو کیسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے کہ قدرتی آفات کو روکنا تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود انسانی بس سے باہر ہے، پھربھی وہ سالانہ اربوں ڈالر اسکی روک تھام کے طریقے ڈھونڈنے پر صرف کرتا ہے ، جبکہ وہ جنگ جس کا یہ تنہا ذمہ دارہے اور جو اس کی سب سے بڑی قاتل ہے، اسے شروع کرنے کے لئے یہ بہانے ڈھونڈتا ہے، اب اگر سہیل وڑائچ سے انکا زبان زدِ عام جملہ مستعار لیں تو یہ سوال تو بنتا ہے کہ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟

جنگ شروع بہت آسانی سے ہوجاتی ہے، تکبر، اَنا اور معاشی مفادات اسکا دیباچہ بنتے ہیں، تاریخ کھنگال ڈالئے ماہر سے ماہر جنگی ماہرین نے بھی جنگ کے آغاز سے قبل اس کے اختتام کے لئے جتنے بھی اندازے لگائے وہ دھرے کے دھرے رہ گئے۔ جنگ شروع تو اپنی مرضی کی تاریخ پر کی جاسکتی ہے، لیکن اس کے اختتام کی تاریخ تلاش کرتے جرنیلوں کو اندھیرے نگل جاتے ہیں۔ انسانیت کا سب سے بڑا قتل عام کرنے والے منگول آج کی دنیا میں اجنبی ہیں۔ عالمی سیاست میں دور دور تک ان کا وجود ہی نظر نہیں آتا۔ وہ صرف تاریخ کے مدفن میں ملتے ہیں۔

تاریخ کا ایک بڑا قتلِ عام کرنے والے جاپانی آج سب سے زیادہ نفرت جنگ سے ہی کرتے ہیں۔ تاریخ کے دو بڑے قتل عام سہنے والے چینی جنگ سے گریز کی حکمتِ عملی پر کار بند ہیں اور یہ دونوں ہی قومیں سیاسی عظمت اور معاشی ترقی کی راہ کے سب سے تیز مسافر پائی گئی ہیں۔ آج کی دنیا میں امریکہ اور برطانیہ کے بعد کوئی تیسرا ملک دکھائے جس نے اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد جنگ پر رکھی ہو! ۔ ساٹھ سال تک امریکہ کے ہاتھوں استعمال ہونے والے یورپ نے بھی جب کہا کہ اسے یہ بات سمجھ آگئی ہے کہ جنگ نہیں ہر امن تعلقات کے ذریعے فائدے کے حصول کا دور آپہنچا ہے۔ یہ بات سمجھ آتے ہی اس نے امریکہ اور برطانیہ کو افغانستان میں تنہا چھوڑ کر گھر کی راہ لی تھی کہ نہیں؟ لیکن کیا یورپ اس تصور پر قائم رہ پایا؟ جنگ نہیں پرامن تعلقات جیسے نیک خیال کے دس سال بعد ہی وہ ایک بار پھر امریکہ کے چکر میں آکر خود کو یوکرین جنگ میں پھنسوا بیٹھا اور پھنسوایا بھی خود کو یوں کہ یورپ کو آج کساد بازاری کا سامنا ہے۔ اس کا سب سے بڑا صنعتی ملک جرمنی ڈی انڈسٹرلائزیشن کا سامنا کر رہا ہے۔ کیوں ؟ کیونکہ انہیں یہ خواب دکھایا گیا تھا کہ یوکرین جنگ حتمی نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم روس کو پانچ ٹکڑوں میں تقسیم کردیں گے اور اس کے بعد دنیا کے سب سے بڑے قدرتی خزانوں والے اس خطے کو ہم مل کر لوٹیں گے۔

ذرا ایک نظر یہ دیکھئے کہ یوکرین میں شرمناک ذلت کا سامنے کرتے مغربی اتحاد پر اگست 2021 تک اکیسویں صدی کے پہلے بیس سالوں میں کیا بیتی تھی۔ امریکہ میں تین ہزار لوگ نائن الیون میں مرے تو وہ چوالیس ملکوں کی مدد سے افغانستان پر چڑھ دوڑا۔ تکبر اس درجے کا کہ ہم جیسے نحیف سے پوچھا

“میرے ساتھ ہو یا میرے خلاف ؟”

ہم نے ایسا ساتھ دیا کہ گھٹنوں تک افغان دلدل میں پھنسا کر اس کی حالت یہ کردی اگر ہاتھ جوڑ کر ہم سے مزید ساتھ نہ دینے کی اپیل کرتا تو مرتا اور مزید ساتھ مانگتا تب بھی مرتا۔ اس کے غرور کا سر اس سے زیادہ اور کیا نیچے ہوتا کہ یہ افغانستان پر چڑھائی کے چند ماہ بعد بون کانفرنس سے فیصلہ یہ کروا کر اٹھا کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک افغانستان میں کوئی مداخلت نہیں کریں گے۔ اور چند ہی سالوں میں حالت یہ ہوئی کہ 2008ء سے 2018ء تک وہ ہماری یہی منتیں کرتا رہا کہ فار گاڈ سیک حریف سے ہمارے مذاکرات کروا یئے۔ یعنی بون کانفرنس کے اعلامئے کے ذریعے ہمیں جس مداخلت سے روکا تھا، اسی مداخلت کی بحالی کا دس سال تک تقاضا چلایا۔

ایک کھرب ڈالرز سے اوپر خرچ کرنے کے باوجود اس کی حالت یہ تھی کہ امریکہ سے آنے والے حکام کو کابل ایئرپورٹ سے اپنے سفارتخانے تک جانے کے لئے ہیلی کاپٹر استعمال کرنا پڑتا تھا۔ وجہ اس کی یہ ہرگز نہ تھی کہ ہیلی کاپٹر کا خرچ فی گھنٹہ صرف پچاس روپے آتا تھا بلکہ یہ رہی کہ وہ کابل شہر کی سڑکوں کو اپنے لئے غیر محفوظ سمجھتے تھے۔ اس سے بھی زیادہ شرمناک بات یہ رہی کہ اقوام متحدہ، جی ہاں ! اقوام متحدہ اور انٹرنیشنل این جی اوز کا سٹاف 2018ء میں کابل شہر میں نقل و حرکت کی لوگر میں بیٹھے جنگجو کمانڈر سے پیشگی اجازت لیتا، جس کے لئے رابطے کا ایک باقاعدہ نظام کار وضع کیا گیا تھا۔

یہ وہ حالات تھے جن میں امریکہ پاکستان سے مذاکرات میں مدد مانگ رہا تھا۔ وہ مدد فراہم کردی گئی تو پوری دنیا نے یہ تماشا دیکھا کہ جس امریکہ کی اہم ترین پالیسیوں میں سے ایک پالیسی یہ چلی آرہی تھی کہ وہ کہتے، ہم دہشت گردوں سے مذاکرات نہیں کرتے۔ وہی امریکہ اب ان سے دوحہ میں مذاکرات کر رہا تھا جنہیں خود اس نے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ بے بسی کا یہ عالم رہا کہ سکیم یہ بنائی تھی کہ مذاکرات کے نتیجے میں پرامن انخلاء کرکے افغانستان پر اشرف غنی کا تسلط برقرار رکھیں گے۔ مگر ہوا کیا ؟ یہی کہ کابل ان کے لئے دوسرا سائیگون بن گیا۔ مگر ملین ڈالرز کا سوال تو یہ ہے کہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں نے افغانستان میں اپنی بیس سالہ ناکامی کا عبرتناک اختتامیہ دیکھنے کے باوجود کوئی سبق سیکھا ؟ اگر سیکھا ہوتا تو کیا یہ افغانستان سے اپنے شرمناک فرار کے محض دو سال بعد یوکرین میں بھی ایک بڑی ذلت کا سامنا کر رہے ہوتے ؟ مگر قابل غور بات یہ ہے کہ یوکرین والی ذلت کے بعد بھی کسی اور ذلت کا سامنا کرنے سے قبل یہ ایک بار پھر کوئی ایسی عالمی کانفرنس منعقد کریں گے جس کا موضوع یہ ہوگا قدرتی آفات سے انسانیت کو کیسے بچایا جائے ؟ حلانکہ انسانیت کو اتنا نقصان قدرتی آفات نے نہیں پہنچایا جتنا اس مغربی اتحاد سے پہنچا ہے !

Related Posts