یہ دبئی میں ایک گرم اور مرطوب دن تھا، لیکن سیاسی ماحول کا درجہ حرارت اس سے بھی زیادہ دکھائی دے رہا تھا۔ پاکستان کے تین اہم ترین سیاست دان دبئی شہر میں ایک اہم اجلاس میں شریک تھے، جس سے امید کی جا رہی ہے کہ اس اجلاس میں ملک کے سیاسی مستقبل کی تشکیل کیلئے اہم فیصلے متوقع ہیں۔
سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف لندن سے اس اجلاس میں شرکت کیلئے پہلے ہی دبئی پہنچے تھے۔ نواز شریف کے دبئی پہنچنے کے بعد پاکستان سے ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی دبئی پہنچیں۔ اس اہم اجلاس کے دیگر اہم شرکا میں سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور ان کے بیٹے بلاول تھے، دونوں باپ بیٹے بھی اس اجلاس میں شرکت کی غرض سے کراچی سے یہاں پہنچے ہیں۔
اجلاس کا جو مشترکہ ایجنڈا سامنے آیا ہے وہ پاکستان کو درپیش سیاسی چیلنجز پر بات چیت کرنا اور آئندہ عام انتخابات کے لیے حکمت عملی وضع کرنا تھا۔ نیز اس کے علاوہ قانون میں حالیہ ترمیم کے بعد نواز شریف کی پاکستان واپسی کا طریق کار بھی اجلاس میں زیر بحث آیا۔
پاکستان کے اہم سیاسی رہنماؤں کی یہ نشست وزیر خزانہ اسحاق ڈار جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے سمدھی بھی ہیں، کی رہائش گاہ ایمریٹس ہل میں ہوئی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مقام کا انتخاب اس کی سیکیورٹی اور رازداری کے ساتھ ساتھ دبئی کے شاہی خاندان سے قربت کے باعث کیا گیا، جس نے مہمانوں کو سرکاری پروٹوکول دیا اور میزبانی کے فرائض انجام دیے۔
ملاقات کئی گھنٹے تک جاری رہی جس کے دوران ان اہم سیاسی رہنماؤں نے مختلف امور پر تبادلہ خیال کیا۔ اگرچہ پاکستان پیپلز پارٹی اس بات کو شدت سے رد کر چکی ہے، مگر صحافتی حلقوں میں قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں انتخابی اتحاد پر غور کر سکتی ہیں۔
ملاقاتوں اور میٹنگوں کا سلسلہ ابھی جاری ہے۔ کچھ نشستیں ہوچکی ہیں اور ممکنہ طور پر جب تک کوئی حتمی نتیجہ سامنے نہ آئے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ ان مذاکرات میں نواز شریف اور زرداری انتخابات کی تاریخوں اور نگراں انتظامیہ کے لیے ممکنہ امیدواروں پر بھی بات کریں گے، کیونکہ اتحاد کے باوجود ہر فریق یہ چاہتا ہے کہ اس کیلئے الیکشن میں زیادہ سے زیادہ فتوحات سمیٹنے کی راہ ہموار ہو۔
ایک اور متوقع اہم قدم الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم بھی ہے، جس سے آرٹیکل 62(1)(f) کے تحت قانون سازوں کی تاحیات نا اہلی ختم کی جا سکتی ہے۔ اگر صدر اس پر دستخط کر دیتے ہیں تو یہ ترمیم نواز شریف کی سیاست میں واپسی کا دروازہ کھول دے گی۔ جب سے نواز شریف کو 2017 میں تا حیات نا اہل کر دیا گیا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ برطرف کیے گئے تب سے وہ اس امید پر قائم ہیں، جلد سب کے سامنے آجائے گا کہ اس سلسلے میں وقت کی گرد سے کیا برآمد ہوتا ہے۔