ماسکو بغاوت اور پرائیویٹ عسکری تنظیمیں/ آخری حصہ

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ہم چونکہ 1997ء تک ایک بڑی عسکری تنظیم کے ٹاپ لیول پر رہ چکے ہیں سو ہم ان تنظیموں، ان کے تنظیمی ڈھانچے، نفسیات، کرپشن اور جہالت سمیت ہر چیز سے بخوبی آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1997ء میں 27 سال کی عمر میں ان سے علیحدگی کے بعد کبھی بھی ان کا حصہ نہیں بنے۔ یقین جانئے ہم نے عسکری تنظیموں کے بہت ہی احمق قسم کے سربراہ دیکھ رکھے ہیں۔ حتی کا ایک سبزی فروش کو بھی عسکری تنظیم کا سربراہ بنتے دیکھا ہے۔ مگر ہم نے پریگوژن سے زیادہ احمق آج تک نہیں دیکھا۔

موجودہ وقت میں واگنر گروپ کی کل نفری پانچ سے چھ ہزار پر مشتمل ہے۔ اور یہ اس روس کے خلاف علم بغاوت بلند کرنے جیسی بڑی حماقت کر بیٹھا جس کا یوکرین میں پورا مغرب کچھ نہیں بگاڑ پا رہا۔ روس نے فرنٹ لائن پر تین دفاعی لائنیں قائم کر رکھی ہیں۔ پچھلے تین ہفتوں کے دوران بہت بڑے بڑے حملے کرکے یوکرینی فوجی دستے روس کی پہلی دفاعی لائن کے بھی قریب نہیں پہنچ سکے۔ صرف ان تین ہفتوں میں روس نے 280 تو یوکرین کےصرف ٹینک تباہ کئے ہیں۔ بکتر بند گاڑیوں اور ٹرکوں کا تو کوئی حساب ہی نہیں۔ جبکہ ان تین ہفتوں میں مارے گئے یوکرینی فوجیوں کی تعداد 14 ہزار ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ پریگوژن سے زیادہ بڑی حماقت کا مظاہرہ خود روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے کیا ہے۔ ایک پرائیویٹ عسکری گروپ کو بھاری ہتھیاروں سے مسلح کرنا خوفناک غلطی تھی۔ پھر جب نظر آیا کہ اس گروپ کا سربراہ تو بدست خود ہی اپنا بت تراش رہا ہے تو چونکنے کا لمحہ تھا مگر پیوٹن نہیں چونکے۔ بات یہیں نہیں رکتی، جب پریگوژن نے روسی وزیر دفاع سرگئی شیگو کے خلاف بذات خود ویڈیوز بنا بنا کر اپلوڈ کرنی شروع کیں تو یہ وہ وقت تھا جب اسے فورا گرفتار کر لینا چاہئے تھا مگر نہیں کیا گیا۔

دنیا بھر کی افواج کے پاس نہات مہلک ہتھیار ہوتے ہیں۔ سات ممالک کی افواج تو ایٹمی ہتھیاروں سے بھی لیس ہیں۔ مگر یہ ہتھیار کبھی بھی اپنی قوم یا حکومت کے خلاف استعمال نہیں ہوتے۔ کیوں ؟ کیونکہ ان افواج کی ٹریننگ بہت اعلی درجے کی ہوتی ہے۔ اس میں صرف ہتھیاروں اور جنگی حکمت عملی کی ہی ٹریننگ نہیں ہوتی بلکہ بہت ہی کڑی نفسیاتی ٹریننگ بھی شامل ہوتی ہے۔ دوسری چیز یہ کہ ان افواج کا کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم فول پروف ہوتا ہے۔ جب ٹریننگ اور نظم و نسق اعلی درجے کا ہو تو پھر ہتھیار صرف دشمن کے خلاف ہی کام آتے ہیں۔

لیکن اگر مہلک ہتھیار کسی ایسی تنظیم کے سربراہ کے پاس ہوں جس کی سپاہ کی کل ٹریننگ ہی چار سے چھ ماہ کی ہو۔ اور یہ ٹریننگ ہو بھی صرف ہتھیاروں کی۔ کوئی نفسیاتی ٹریننگ نہیں، نظم و نسق کا کوئی سبق نہیں تو یہ تو بندر کے ہاتھ میں استرا تھمانے سے بھی زیادہ خطرناک حرکت ہے۔ اس کا اندازہ یقینا وہ ویڈیوز دیکھ کر خود ولادیمیر پیوٹن کو بھی ہو گیا ہوگا جن میں وہ مناظر تھے جب واگنر کا کانوائے ٹرالرز پر لدے ٹینکوں کے ہمراہ ماسکو کی طرف بڑھ رہا تھا۔ پریگوژن کے احمق ہونے کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ بکتر بند اور ٹینک جب ٹرالرز پر ہوں تو ان کی حیثیت فقط “سامان” کی ہوتی ہے۔ انہیں تو نشانہ بنایا جاسکتا ہے مگر یہ کسی کو نشانہ نہیں بنا سکتے۔

یہ پورا کانوائے روسی فضائیہ کے چند میزائلز کی مار تھا مگر پیوٹن نے خونریزی کو آخری آپشن رکھا۔ واگنر نے ماسکو کی طرف مارچ کرنے سے قبل یوکرین کی سرحد پر واقع روسی شہر روستاف پر بغیر کسی لڑائی کے قبضہ کر لیا تھا۔ وہاں جب واگنر دستے داخل ہوئے تو روسی فوج کو مزاحمت نہ کرنے کا حکم دیا جاچکا تھا۔ اور جب واگنر کی نصف سپاہ ماسکو طرف روانہ ہوگئی تو پیوٹن نے چیچن فوجی دستوں کو روستاف کے محاصرے کا حکم دیدیا ۔ اگلے ہی چند گھنٹوں میں روستاف چیچن فوجی ستوں کے محاصرے میں تھا۔

واگنر سیٹھ پریگوژن کا قافلہ ماسکو سے 200 کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جب بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکا شنکو نے اس سے رابطہ کرکے ہتھیار ڈالنے پر آمادہ کیا۔ لوکاشنکو نے یقینا پریگوژن کو آگاہ کردیا ہوگا کہ ان کی آفر قبول نہ کرنے کے ممکنہ نتائج کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ واگنرز کانوائے کو پیوٹن کسی صورت ماسکو نہ پہنچنے دیتے، ان کا کھیل شاہراہ پر ہی ختم کردیا جاتا۔ دنیاکی دوسری بڑی سپر طاقت کے لئے چند ہزار باغیوں سے نمٹنا کوئی مشکل کام نہیں۔ مقام شکر ہے کہ بخموت کی فتح سے بدمست ہوجانے والا پریگوژن ماسکو کو فتح کرنے کے خواب سے دستبردار ہوا۔ اطلاعات کے مطابق وہ اب بخشی گئی زندگی کے باقی ماندہ سال بیلاروس میں گزارے گا اور واگنر گروپ تحلیل کردیا جائے گا۔

ماسکو سے 200 کلومیٹر کے فاصلے سے لئے گئے پریگوژن کے یوٹرن نے اس مغربی میڈیا پر سوگ کی سی کیفیت طاری کردی ہے جو دن بھر کبھی یہ خوشخبری سناتا رہا کہ ولادیمیر پیوٹن ماسکو سے فرار ہوگئے ہیں۔ تو کبھی یہ نوید کہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشنکو کے خلاف بھی بغاوت ہوگئی ہے۔ وہ بھی دارالحکومت منسک سے فرار ہوگئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ کہ جو مغربی میڈیا ڈاکومنٹریز بنا بنا کر 25 سال سے دنیا کو یہ باور کراتا آیا تھا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بہت ہی طاقتور آدمی ہے۔ روس میں اس کے خلاف کوئی بات کرنے کی بھی جرات نہیں کرتا۔ وہی میڈیا واگنر کے یوٹرن کے بعد ریٹائرڈ امریکی جرنیلوں کے ذریعے اب یہ یقین دلا رہا تھا “یہ تو ثابت ہوگیا نا کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کوئی طاقتور آدمی نہیں” گویا مت ایسی ماری گئی کہ یہ تک بھول گئے کہ پیوٹن کو طاقتور آدمی کا خطاب تو خود انہوں نے دے رکھا ہے۔

اس بحران کے دوران جس غیر ملکی سربراہ نے سب سے پہلے دانشمندی دکھائی وہ ترکی کے صدر رجب طیب اردگان ہیں۔ اردگان نے پیوٹن کو فون کرکے ترکی کی جانب سے حمایت کی یقین دہانی کرائی۔ ظاہر ہے ایک نیٹو ملک کے سربراہ کا یہ اقدام بجائے خود مغربی ممالک کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف تھا۔ مگر طیب اردگان پیوٹن کا وہ احسان کیسے فراموش کرسکتے تھے جب انہوں نے اردگان کے خلاف ترک فوج کی بغاوت ناکام بنانے میں کلیدی رول پلے کیا تھا۔ بعینہ لوکا شنکو کا بھی معاملہ ہے۔ 2020ء میں امریکہ اور مغربی ممالک نے بیلاروس میں بھی یوکرین کی تاریخ دہرانے کی کوشش کی تھی۔ اور اسے بھی روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ہی ناکام کیا تھا۔ اسی بیلاروس میں اب پیوٹن نے ایٹمی ہتھیار بھی پہنچا دیئے ہیں۔

اس ختم ہوئے بحران میں میں روسیوں کے ساتھ ساتھ باقی دنیا کے لئے اسباق تو کئی ہیں۔ مگر ان اسباق کا خلاصہ یہی ہے کہ بیسویں صدی میں پرائیویٹ عسکری تنظیموں کے استعمال کارواج امریکہ اور روس نے شروع کیا اور پھر رفتہ رفتہ دیگر ممالک بھی اس ڈگر پر چل پڑے۔ یہ تنظیمیں خارجہ پالیسی کے مستقل ٹول کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ اس رواج کو اب ختم کرنا ہوگا اور اس پر عالمگیر پابندی لگانی ہوگی ورنہ کوئی بھی بڑا سانحہ رونما ہوسکتا ہے۔ (ختم شد)

Related Posts