گزشتہ روز جب جماعتِ اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان کے مقابلے میں پی پی پی کے مرتضیٰ وہاب کے میئر کراچی بننے کی اطلاع سامنے آئی تو پیپلز پارٹی پر ہارس ٹریڈنگ سمیت دیگر الزامات عائد کیے گئے۔
الزام تراشی کے اس عمل میں سابق وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد پیش پیش تھے۔ انہوں نے تو واضح طور پر کہہ دیا کہ پی پی پی کیلئے 36 کروڑ روپے میں میئر کراچی کا سودا مہنگا نہیں ہے۔
عوامی لیگ کے سربراہ شیخ رشید کا گزشتہ روز اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا تھا کہ میں نے پہلے ہفتے ہی کہہ دیا تھا کہ دوبئی میں خریدوفروخت کی منڈی لگ گئی ہے۔ حافظ نعیم الرحمان کو میئر نہیں بننے دیا جائے گا۔حافظ نعیم کو خریدوفروخت کی سیاست میں شکست ہوئی ہے۔ عوام میں نہیں۔
شیخ رشید کے اس بیان سے پیپلز پارٹی پر واضح طور پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام ثابت ہوتا ہے، یعنی سابق وزیرِ داخلہ کے بیان کے مطابق ووٹرز کو خریدا اور بیچا گیا ہے یا پھر پیپلز پارٹی کو جو ووٹ پڑے، وہ عوامی نمائندوں کی ذاتی رائے پر نہیں، بلکہ پیسے کے باعث دئیے گئے تھے۔
ہارس ٹریڈنگ سے مراد یہ ہے کہ اراکینِ قومی و صوبائی اسمبلی، سینیٹرز یا پھر یوسی چیئرمین کو خریدا اور بیچا جائے۔ انہیں پیسے یا کسی اور لالچ یا خوف کے باعث اپنی جماعت کے حق میں ووٹ دینے پر مجبور کیا جائے۔
طویل مدت سے پیپلز پارٹی ہی کراچی اور سندھ پر برسرِ اقتدار ہے جس پر میئر کراچی کے علاوہ وزیر اعلیٰ سندھ، اراکینِ اسمبلی اور دیگر عہدوں کیلئے بھی ہارس ٹریڈنگ، کرپشن اور اقرباء پروری سمیت دیگر الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔
بلاشبہ نئے میئر کراچی کا انتخاب پیپلز پارٹی سے ہونا پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کیلئے کسی اعزاز سے کم نہیں، تاہم مرتضیٰ وہاب کو میئر کے عہدے پر رہتے ہوئے متعدد چیلنجز کا سامنا کرنا ہوگا۔
قبل ازیں مرتضیٰ وہاب نے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر پی پی پی کے علاوہ کسی اور جماعت کا میئر آیا تو وہ اختیارات کا ہی شکوہ کرتا رہے گا۔ پی پی پی کا میئر آیا تو معاملات چلانے میں آسانی ہوگی۔
دیکھنا یہ ہے کہ مرتضیٰ وہاب میئر کراچی کے طور پر عوام کی امیدوں پر کس حد تک پورے اتریں گے اور عوام کی خدمت کیلئے کون سے نت نئے اقدامات اٹھائے جائیں گے جن سے عام آدمی کا معیارِ زندگی بلند ہو اور وہ ملک کی تعمیر و ترقی کے عمل میں حصہ ڈال سکے۔