پاکستان میں انتخابات کو موت و حیات کا مسئلہ بنا دیا گیا ہے۔ دو صوبوں کی منتخب اسمبلیوں اور منتخب حکومتوں کے توڑے جانے کے بعد دستور کے تحت نوے دن میں نئے الیکشن ہونے چاہئیں، مگر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی اختلاف کی آنچ جس طرح بڑھ کر عداوت میں ڈھل گئی ہے اور پھر اس کش مکش میں جس طرح دفاعی اداروں کی دلچسپی بھی شامل ہوگئی ہے، اس نے انتخابات کے ایک سیدھے سادے مسئلے کو ایسا پیچیدہ بنا دیا ہے کہ کوئی سرا ہاتھ آتا دکھائی نہیں دیتا۔
انتخابات کے معاملے پر حکومت اور الیکشن کمیشن کے مسلسل پس و پیش کو دیکھ کر عدالت عظمیٰ نے تاکیدی حکم کے ساتھ پنجاب میں صوبائی اسمبلی کے نئے عام انتخابات کے لیے چودہ مئی کی تاریخ مقرر کر دی تھی، تاہم چودہ مئی سر پر آنے کے باوجود دور دور تک پنجاب میں صوبائی الیکشن کے آثار اور عدالت عظمیٰ کے حکم کی تعمیل ہوتی نظر نہیں آ رہی، مگر اس کے بر عکس برادر مسلم ملک ترکیہ میں طے شدہ شیڈول کے مطابق چودہ مئی بروز اتوار صدارتی اور پارلیمانی انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔
یہ الیکشن اس بنا پر انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ اس بار الیکشن میں 21 سال سے بر سر اقتدار ترکیہ کے مرد آہن رجب طیب ایردوان کو پہلی بار اپنے سیاسی کیریئر کے بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔ چودہ مئی کے الیکشن اس حوالے سے ایک واضح سمت متعین کریں گے کہ ترکیہ کے مستقبل کے سیاسی منظرنامے میں ایردوان کا کیا کردار اور مقام ہوگا، آیا وہ کھیل سے مکمل باہر ہو جائیں گے یا پھر ان کا کردار آئندہ بھی کسی حد تک باقی رہے گا۔
ترکیہ میں انتخابات کیلئے متناسب نمائندگی کا طریق کار رائج ہے۔ جس کے تحت صدارتی الیکشن جیتنے کیلئے کسی بھی امیدوار کا پچاس فیصد یا اس سے زائد ووٹ لینا لازمی ہے، اگر کوئی امیدوار پچاس فیصد سے زیادہ ووٹ لینے میں کامیاب ہوجائے تو اس کی فتح کا اعلان کر دیا جاتا ہے اور اگر کوئی بھی امیدوار پچاس فیصد ووٹ نہ لے سکے تو پہلے اور دوسرے نمبر کے دو امیدواروں کے درمیان انتخابات کے دوسرے مرحلے میں مقابلہ ہوتا ہے۔ اس بار متوقع طور پر دوسرے مرحلے کیلئے 28 مئی کی تاریخ مقرر کی گئی ہے، اگر چودہ مئی کو پہلے مرحلے میں کوئی بھی امیدوار پچاس فیصد یا اس سے زیادہ ووٹ حاصل نہیں کر پایا تو اول اور دوم آنے والے امید وار 28 مئی کو دوسرے مرحلے میں مقابلے کیلئے میدان میں اتریں گے۔
انتخابات کی تیاریاں مکمل ہیں اور انتخابی مہم بھی نقطہ عروج کو چھو رہی ہے، جبکہ دنیا کے مختلف ملکوں میں مقیم 1.76 ترک شہری بھی پوسٹل بیلٹ کے ذریعے اپنا ووٹ کاسٹ کر چکے ہیں، جن کے بیلٹ پیپر متعلقہ پروٹوکول کے تحت ترکیہ پہنچانے کا عمل بھی پایہ تکمیل کو پہنچ گیا ہے۔ اس الیکشن میں میں یوں تو تقریبا دو درجن کے لگ بھگ جماعتیں حصہ لے رہی ہیں، تاہم صدارتی انتخاب میں اصل مقابلہ صدر رجب طیب ایردوان اور چھ جماعتی اتحاد کے مشترکہ امیدوار کمال قلشدار اوعلو (kemal kılıçdaroğlu) کے درمیان ہی متوقع ہے۔
صدر رجب طیب ایردوان جدید ترکیہ کے ایک دور اندیش، مدبر اور بہترین منتظم رہنما ہیں۔ وہ نہ صرف ترکیہ میں مقبول ہیں، بلکہ دنیا بھر کے مسلمان بھی مسلم امہ کے مشترکہ مسائل پر ایک عام مسلمان کی امنگوں کے مطابق توانا آواز اٹھانے پر انہیں دل سے عزیر رکھتے ہیں۔ رجب طیب ایردوان نے اسی کی دہائی میں اس وقت ترکیہ کی سیاست میں قدم رکھا جب ترکیہ تیسری دنیا کے مقروض، معاشی بدحالی اور سیاسی عدم استحکام کے شکار ملکوں کی فہرست میں شامل تھا۔ یہی نہیں بلکہ دستوری طور پر کمال ازم کے تحفظ کی علمبردار ترک فوج کے زیر تسلط ترکیہ مسلم دنیا سے بھی بڑی حد تک کٹا ہوا تھا۔
رجب طیب ایردوان نے اپنے سیاسی گرو اور ترکیہ میں اسلام پسند تحریک کے اہم رہنما نجم الدین اربکان کی سرپرستی میں میدان سیاست میں قدم رکھا، اربکان کی پارٹی نے نوے کی دہائی میں انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے اتحادی حکومت بھی قائم کی، مگر ترک فوج نے ایک سال بعد ہی ان کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس سے پہلے بھی اربَکان اپنے سیاسی کیریئر میں کئی پابندیوں اور مشکلات کا سامنا کر چکے تھے۔
سنہ 2001 میں سابقہ تلخ تجربات سے سبق سیکھ کر رجب طیب ایردوان نے نجم الدین اربکان سے علیحدگی اختیار کی اور اپنے ساتھی عبد اللہ گل کے ہمراہ عدل و ترقی پارٹی (جس کا ترک مخفف آق پارٹی ہے) کے نام سے اپنی الگ جماعت بنا کر سیاسی جدوجہد کو صرف اور صرف ترقی اور انصاف کے رخ پر موڑ دیا۔
سنہ 1994 میں ایردوان استنبول کے ناظم منتخب ہوئے تھے۔ ان کی نظامت سے پہلے استنبول جیسا بین الاقوامی اور اسلامی دنیا کا ثقافتی دار الحکومت کہلانے والا تاریخی شہر صفائی ستھرائی اور پانی کی کمیابی جیسے بلدیاتی مسائل کا شکار تھا، مگر ایردوان نے تمام تر مشکلات کے باوجود بطور شہردار اپنے حسن تدبیر سے استنبول کی ایسی شاندار آئینہ بندی کر دی کہ اس کارکردگی کی بدولت ایردوان کو ملک گیر مقبولیت حاصل ہوئی، تاہم 1997 میں ایک جلسے میں ایک اسلامی نظم پڑھنے کی پاداش میں انہیں نا اہل کر کے جیل میں ڈالا گیا اور نظامت سے بھی معزول کر دیا گیا۔
2001 میں اپنی نئی پارٹی کے ساتھ ایردوان نے اس حالت میں انتخابی دنگل میں حصہ لیا کہ اسی نظم کے کیس کی وجہ سے وہ بذات خود امیدوار نہ بن سکتے تھے، تاہم اس الیکشن میں آق پارٹی نے واضح اکثریت حاصل کرکے ایردوان کے پارلیمان میں پہنچنے کی راہ ہموار کردی۔ 2003 میں ایردوان ترکی کے وزیر اعظم منتخب ہوئے، تب سے لے کر آج تک تقریبا بیس سال کے عرصے میں مسلسل انتھک محنت اور تدبر کے ساتھ ایردوان نے ترکیہ کو بدترین کساد بازاری کے شکار ملک کی سطح سے اٹھا کر دنیا کی چند اہم اور مستحکم معیشتوں کی صف میں لاکھڑا کر دیا ہے۔ اس کے علاوہ کمال ازم کے جبر اور سختیوں کے تحت جو مذہبی پابندیاں عائد تھیں، ایردوان نے کمال حکمت سے ان میں بھی واضح کمی کر دی اور ساتھ ہی فوج کا اقتدار اور سیاست میں جو دستوری کردار چلا آرہا تھا، اس کا بھی حسن تدبر سے خاتمہ کر دیا۔ آج ترکی دفاعی پیداوار میں ٹینک سازی سے لے کر ڈرون اور بہترین بحری بیڑے تک بنا رہا ہے اور فوجی، سیاسی اور معاشی ہر حوالے سے دنیا میں اہم مقام رکھتا ہے۔
ایردوان کے ان تمام کارناموں کے باوجود مگر آج ترکیہ میں ان کی مقبولیت کا گراف مسلسل کم ہو رہا ہے اور انہیں آج ووٹرز کا اعتماد حاصل کرنے اور ہارڈ لائنر کمالسٹ اپوزیشن امیدوار کمال قلش دار اوعلو پر فتح کیلئے سخت ترین چیلنج کا سامنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے اور ترک ووٹرز ‘تبدیلی’ کیوں چاہتا ہے؟
تبدیلی کے خواہش مندوں میں واضح اکثریت نوجوان نسل کی ہے۔ عالم یہ ہے کہ اس بار کے الیکشن میں 60 لاکھ ایسے نوجوان بھی رجسٹرڈ ہیں، جو اپنی زندگی کا پہلا ووٹ کاسٹ کریں گے اور ایسے تمام نوجوانوں کے لبوں پر تبدیلی کے نعرے ہیں اور یہ تبدیلی وہ رجب طیب ایردوان کی جگہ اپوزیشن کے چھ جماعتی اتحاد کے امیدوار کمال قلشدار اوعلو کی کامیابی کی صورت میں دیکھنا چاہتے ہیں۔
اب تک کے پری پول انتخابی جائزوں اور مختلف اداروں کے سرویز میں اپوزیشن اتحاد کی ایردوان پر برتری دکھائی دے رہی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ ایسا لگ رہا ہے کہ پہلے ہی مرحلے میں صدر کا فیصلہ ہو جائے گا اور معاملہ اپوزیشن اتحاد کے امیدوار کی واضح برتری کے نتیجے میں دوسرے مرحلے کی طرف نہیں جائے گا۔ ترک ذرائع کا یہاں تک کہنا ہے کہ ایردوان کی جیت کسی معجزے کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے، اس کے سوا ان کی فتح کے امکانات کا دائرہ بہت تنگ ہے۔
آخر ترک عوام ایردوان سے اس قدر تنگ کیوں آگئے ہیں، اس سوال کے جواب میں اپوزیشن اتحاد کے رہنماؤں کے بیانات اور الزامات کی روشنی میں جو کچھ سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ ترک عوام کی بڑی تعداد ایردوان کی مہاجرین نوازی اور بڑے پیمانے پر غیر ملکیوں کو ترکیہ کی شہریت دینے کی پالیسی کی مخالف ہے۔ ان کے مطابق اس پالیسی کے باعث ترک شہریوں کو مختلف سماجی مسائل کا سامنا ہے اور ترک شہریوں کیلئے روزگار کے مسائل بھی پیدا ہوگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ اپوزیشن اتحاد کا ایک بڑا وعدہ یہ بھی ہے کہ وہ مہاجرین اور غیر ملکیوں کیخلاف سخت قوانین لاگو کریں گے اور ایردوان کی پالیسی ختم کر دیں گے۔
اس کے علاوہ ایردوان کی جانب سے عراق، شام، مصر، سعودیہ اور ایران کے ساتھ محاذ آرائی کو بھی ترک عوام کی ایک بڑی تعداد اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہی۔ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی اپوزیشن نے ہائی لائٹ کر رکھا ہے کہ ایردوان نے آمریت قائم کر رکھی ہے اور وہ ہر مخالف آواز کو ریاستی طاقت سے دبانے کی روش پر گامزن ہیں۔ اور بھی کچھ مسائل ہیں، تاہم سب سے بڑا مسئلہ دراصل یہ ہے کہ تبدیلی کے خواہش مندوں کی بڑی تعداد یعنی نوجوانوں کو ایردوان کا موازنہ ایردوان ہی سے درپیش ہے، انہوں نے ایردوان سے پہلے کے ترکیہ کے حالات نہیں دیکھے ہیں، ان کے سامنے ایردوان ہی ایردوان ترکیہ کی شناخت کا حوالہ ہے، چنانچہ وہ ایردوان کی کارکردگی کو ان کے اولین دور کی کارکردگی کے آئینے میں دیکھتے ہیں تو انہیں معاشی ابتری، لیرا کی ڈی ویلو ایشن، آمریت وغیرہ وغیرہ دکھائی دیتی ہے، چنانچہ وہ اب تبدیلی کی ٹھان چکے ہیں۔
اب تک کے پری پول اندازے رجب طیب ایردوان کے خلاف جا رہے ہیں، حتمی طور پر البتہ یہ چودہ مئی بروز اتوار کی شام کو ہی معلوم ہوگا کہ ترکیہ کس طرف جا رہا ہے۔ ایردوان کو بیچ سے ہٹا دیا جائے تو اکیس سال پہلے کا غیر مستحکم ترکیہ سامنے آتا ہے۔ کیا ایردوان کی شکست کی صورت میں ترکیہ نظریاتی اور سیاسی حوالوں سے ایک بار پھر اکیس سال پہلے کی پوزیشن پر واپس چلا جائے گا؟ یہ دیکھنے میں ابھی بہت کم وقت باقی ہے!