پاکستان کو شدید معاشی بحران کی وجہ سے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی مالی مدد کی اشد ضرورت ہے۔ تاہم، 1.1 بلین ڈالر کی ریلیز، جو کہ 2019 میں دستخط کیے گئے 6.5 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کا حصہ ہے، نومبر 2022 سے پالیسی اصلاحات اور بیرونی فنانسنگ پر اختلافات کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہے۔
جب بھی معاہدہ تکمیل کی جانب بڑھتا ہے ایک نئی رکاوٹ سامنے آجاتی ہے۔آئی ایم ایف نے پاکستان سے کہا ہے کہ وہ گورننس اور مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے مارکیٹ پر مبنی شرح مبادلہ، پیٹرولیم مصنوعات کی بلند قیمتوں، مالیاتی استحکام اور ساختی اصلاحات جیسے اقدامات پر عمل درآمد کرے۔ان اقدامات کی وجہ سے اپریل 2023 میں مہنگائی پہلے ہی 36.4 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے اور اس نے عوامی عدم اطمینان اور سیاسی مخالفت کو جنم دیا ہے۔
حالیہ رکاوٹ جمعہ کو اس وقت سامنے آئی جب آئی ایم ایف نے کہا کہ بیل آؤٹ پروگرام کا 9واں جائزہ مطلوبہ فنانسنگ کے بعد مکمل ہو جائے گا۔ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو ان پالیسیوں کے بارے میں بھی مطمئن کرنے کی ضرورت ہوگی،بشمول مالی سال 2023-24 کا بجٹ،جس پر حکومت عمل درآمد کرنا چاہتی ہے۔آئی ایم ایف کا بیان پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان بڑھتے ہوئے اعتماد کی کمی کو آشکار کررہا ہے۔
آئی ایم ایف کے موجودہ پروگرام کے اختتام سے قبل بجٹ جون 2023 میں پیش کیے جانے کی توقع ہے۔پاکستان کو جون 2023 میں ختم ہونے والے مالی سال کے لیے اپنے متوقع $16 بلین بیلنس آف پیمنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لیے خاطر خواہ بیرونی فنانسنگ حاصل کرنے میں بھی دشواری کا سامنا ہے۔متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور چین نے مارچ اور اپریل 2023 میں ملک کے ساتھ اپنی حمایت کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ وعدے آئی ایم ایف کے مکمل مالیاتی یقین دہانی کے مطالبے سے کم ہیں۔
مذاکرات کے نتائج پاکستان کے معاشی استحکام اور ترقی کے امکانات کے لیے اہم ہیں۔آئی ایم ایف پروگرام کا کامیاب نتیجہ سرمایہ کاروں کے اعتماد کو بحال کرنے، غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور قرض کی رکاوٹوں کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ اگر کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا تو ڈیفالٹ کا امکان بڑھ جائے گا جو کرنسی کے بحران کو جنم دے گا جو پہلے سے بگڑتی ہوئی سماجی اور سیاسی صورتحال کو مزید بڑھا دے گا۔