بلاول بھٹو کا دورہ ۔۔ مستقبل کی امید اور بھارت کا رویہ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بھارت پاکستان کے قیام سے ہی مخاصمت کی آگ میں جل رہا ہے اور کشمیر سمیت ہر معاملے پر پاکستان پر الزام تراشی بھارت کا ازلی وطیرہ رہا ہے اور بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر کی پاکستان کیخلاف الزام تراشی بھی اسی شرمناک پروپیگنڈا مہم کا حصہ ہے۔

پوری دنیا جانتی ہے کہ بھارت کی سیاست کا دارومدار پاکستان کی مخالفت پر منحصر ہے اور اب بھارت میں انتخابات قریب آتے ہی بھارتی سیاستدانوں  نے اپنی ناقص کارکردگی پر پردہ ڈالنے کیلئے پاکستان کیخلاف ہرزہ سرائیاں کرکے ووٹ لینے کی حکمت عملی بنالی ہے۔

بھارتی وزیرخارجہ ایس جے شنکر نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں دہشت گردی سے لڑنے کے لیے مشترکہ کوششوں پر زور دیا اور اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اپنا روایتی راگ الاپتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیا۔

بھارت نے ایک بار پھر پاکستان کیساتھ مذاکرات کی بحالی کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری پر الزامات کی بارش کی اور انہیں ’’دہشت گردی کی صنعت کا ترجمان، فروغ دینے اور جواز فراہم کرنے والا‘‘ قرار دیا۔

ایس سی او کے غیر جانبدار پلیٹ فارم جس کے آرٹیکل 2 کے تحت ممالک کو اپنے درمیان تنازعات باہمی گفتگو حل کرنے کی تلقین کی گئی ہے جس کی وجہ سے دبے الفاظ میں ایس سی او میں اشاروں کنایوں میں پاکستان کا نام لئے بغیر بارڈر پار دہشت گردی کو بہانہ بناکرمستقبل قریب میں دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے امکانات کو معدوم کردیا ہے۔

بھارتی وزیرخارجہ جے شنکر کا ایس سی او کے غیر جانبدار پلیٹ فارم سے دہشت گردی کے الزامات لگاکر پاکستان کی طرف اشارہ دینا بھارتی حکومت کے عزائم کا عکاس ہے۔

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی سرزمین پر کشمیر مسئلے پر پاکستان کا نقطہ نظر بیان کرتے وقت دو ٹوک کہہ دیا کہ جب تک پانچ اگست 2019 میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تبدیلی کا فیصلہ واپس نہیں لیا جاتا اور آرٹیکل 370 کا نفاذ نہیں کیا جائیگا تب تک مذاکرات نہیں  ہوسکتے اور دہشت گردی کو سفارتی ہتھیار کے طور پر پوائنٹ اسکورنگ کیلئے استعمال کرنے پر بھی خوبصورتی سے روشنی ڈالی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ بھارتی وزیرخارجہ دہشت گردی کو پوائنٹ اسکورنگ کیلئے استعمال کرکے ایک بار پھر بے نقاب ہوگئے اور جے شنکر نے میزبان کے طور پر بلاول بھٹو زرداری کو دہشت گردوں کا ترجمان قرار دیکر اپنے ملک میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اپنے لئے خود شرمندگی کا سامان پیدا کیا۔

سیاست اور ریاست دو الگ الگ چیزیں ہیں اور دنوں کے مسائل اور مفادات بھی الگ الگ ہیں، دنیا میں کسی بھی ملک میں سیاسی جماعتیں اپنے اختلافات کو ملک کے مفادات سے تصادم کی اجازت نہیں دیتے۔

دیکھا یہ گیا کہ جب بلاول بھٹو زرداری بطور وزیرخارجہ ایس سی او اجلاس کیلئے روانہ ہوئے تو اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ہی ملک کے اپنے ہی وزیرخارجہ پر نقطہ چینی شروع کردی جبکہ ریاست کی نمائندگی کیلئے کوئی رہنماء بیرون ملک جاتا ہے تو مخالفین بیان بازی سے گریز کرتے ہیں۔

پاکستان اس وقت اندرونی اور بیرونی چیلنجز سے نبرد آزما ہے اور ایسے میں بھارت میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس پاکستان کیلئے ایک نیا امتحان تھا لیکن پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے اس اجلاس میں شرکت کرکے بھارت کیخلاف میدان کھلا چھوڑنے کے بجائے پاکستان کا موقف ڈٹ کر پیش کیا۔

سیاسی مخاصمت میں سیاسی جماعتوں کو پاکستان کو اپنے تمام معاملات سے بالکل الگ رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو اس اجلاس میں شرکت نہ کرتے تو شاید بھارت کو پاکستان کیخلاف اس سے زیادہ شدت دکھانے کا موقع مل جاتا جو بلاول بھٹو کی موجودگی کی وجہ سے نہ مل سکا۔

ایس سی او ایک بہت بڑا فورم ہے اور یہ تنظیم دنیا کی 40 فیصد آبادی کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ 4 ایٹمی قوتیں اس پلیٹ فارم کا حصہ ہیں اور دنیا کی معیشت کا بڑا حصہ اس تنظیم کے ممالک کے چوگرد گھومتا ہے۔عالمی سطح پر نئی صف بندیوں کے تناظر میں پاکستان کی ایس سی او اجلاس میں شرکت نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

امریکا کی خارجہ پالیسی چین کا اثرو رسوخ کم کرنے کے گرد گھوم رہی ہے اور امریکا چین کی معاشی طاقت کو کم کرنے کیلئے اپنا پورا زور لگارہا ہے۔ یہاں اہم بات یہ ہے کہ جہاں چین اور روس شنگھائی تعاون تنظیم کا حصہ ہیں وہیں 5 پانچ بڑے ممالک کے علاوہ سعودی عرب اور ایران بھی ایس سی او کے ڈائیلاگ پارٹنر بن چکے ہیں۔

ایسے میں جب خطے کی بڑی طاقتیں ایک پلیٹ فارم پر یکجا ہیں تو امریکا کیلئے اپنے اہداف حاصل کرنا مزید مشکل ہوجائیگا۔ یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ایک طرف اسٹرنگز آف پرل ہے جس میں پاکستان، سری لنکا، میانمار، بنگلہ دیش اور یہ سلسلہ جنوبی چین سے ملتا ہے جس کے مقابلے میں امریکا نے اسٹرنگز آف الائنز رکھا ہوا ہے جو بھارت سے شروع ہوتا ہے اور اس میں فلپائن، جاپان اور آسٹریلیا شامل ہیں، اس طرح امریکا سمندری پانی پر قابو پانے کیلئے کوشاں ہے۔

جہاں تک آئی ایم ایف سے قرضوں کے پروگرام کی بات ہے تو اگر ہم پاکستان کے چین کی طرف جھکاؤ کو دیکھیں تو ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری تجارت کا بڑا ذریعہ امریکا ہے اور یہ بات بھی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آئی ایم ایف پر امریکا کا اپنا ایک اثرو رسوخ ہے اور قرضوں کے حصول کیلئے امریکا کے کردار کو کسی صورت نظر انداز کرنا ممکن نہیں ہے۔

اب اگر ہم دوبارہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی بات کریں تو وزیرخارجہ بلاول بھٹو کے دورہ بھارت کے ابتدائی نتائج تو حوصلہ افزاء دکھائی دیتے ہیں کیونکہ خطے کے بدلتے منظر نامے میں ایک سب سے بڑی پیشرفت سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارتی تعلقات کی بحالی ہے تو ایسے میں  پاکستان کیلئے الگ تھلگ رہنا سود مند نہ ہوتا۔

وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کے بھارت پہنچنے پر جس طرح کے مناظر دیکھنے کو ملے وہ بہت اچھے تھے، ہمیں اس دورہ کو پاکستان اور بھارت کے تناظر میں نہیں بلکہ ایک وسیع پلیٹ فارم کے طور پر دیکھنا چاہیے۔

اس پلیٹ فارم پر گو کہ پاکستان اور بھارت کے دوطرفہ مسائل اور تنازعات کے حوالے سے دیکھنا ٹھیک نہیں تاہم اگر ہم دیکھیں تو دنیا کی 40 فیصد آبادی رکھنے والا یہ فورم اس وقت خطے کا سب سے مضبوط اور طاقتور پلیٹ فارم ہے اور اب ایران اور سعودی عرب کی آمد کے بعد اس تنظیم کی قوت میں مزید اضافہ متوقع ہے۔

یہ درست ہے کہ بھارت مغرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو پروان چڑھانے میں مصروف ہے لیکن بھارت کو اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ ایس سی او سے الگ ہونا بھارت کیلئے بہت نقصان دہ ہوگا اور بھارت کے مفادات تقسیم ہوجائینگے کیونکہ بھارت اپنی تجارت اور سرمایہ کاری کو بڑھانا چاہتا ہے جبکہ ایس سی او کے ممبر ممالک تجارتی تعاون کے فروغ کیلئے بھی اس پلیٹ فارم کو استعمال کرسکتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان گزشتہ کچھ سالوں سے چند تصفیہ طلب معاملات کی وجہ سے باہمی تجارت اور سفارتی تعلقات منقطع ہیں لیکن آگے چل کر اگر پاکستان یا بھارت اس پلیٹ فارم کے توسط سے تجارتی تعلقات کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو دونوں فریقین آپسی معاملات کو ایک طرف رکھ کر اپنے مفادات کے پیش نظر مثبت پیشرفت دکھاسکتے ہیں۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو کے دورہ بھارت سے فوری بہت زیادہ توقعات لگانا درست نہیں ہوگا کیونکہ سفارتکاری تسلسل کے ساتھ روابط کا نام ہے، چین نے بھی اپنی مستقل مزاجی سے ہی خطے میں اپنی پوزیشن کومستحکم کیا ہے اور خطے کے بااثر ممالک کےدرمیان جاری کشمکش اور کدورتیں ختم کرنے کیلئے تسلسل کے ساتھ کوششیں کرنا ہونگی۔

یہ حقیقت ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان کئی تنازعات ہیں لیکن دونوں کی باہمی تجارت کا حجم 87 ارب ڈالر سے زیادہ ہے اور دونوں ممالک تمام تر اختلافات اور مسائل کے باوجود تجارت میں کوئی کمی نہیں کرنا چاہتے بلکہ اس تجارتی حجم کو بڑھانے کیلئے کوشاں ہیں۔

چین اپنی مثبت سفارتکاری کے ذریعے فلسطین اور اسرائیل کے معاملات کے حل کیلئے بھی متحرک نظر آتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مستقبل میں متوقع تعلقات کی بحالی کیلئے وزیرخارجہ بلاول بھٹو کا دورہ ایک بہتر قدم ثابت ہوسکتا ہے اور امید ہے کہ چین مستقبل قریب میں دنیا کے افق پر پہلے نمبر پر طاقتور ملک بن کر سامنے آئیگا اور ایسی صورت میں ناصرف چین اپنے بارڈر کے معاملات کو بھارت کے ساتھ طے کرلے گا بلکہ کشمیر کے معاملے میں بھی چین پاکستان اور بھارت کے درمیان معاونت کاری کا کردار ادا کرسکتا ہے۔

اس کیلئے ضروری ہے کہ بھارت اپنے مذموم ارادوں کو ترک کرکے خطے میں امن و سلامتی کیلئے نیک نیتی سے مذکرات کی میز پر آئے تاکہ الزام تراشی کے بجائے ملکر مسائل کا حل تلاش کیا جاسکے تاہم بھارت میں الیکشن اور مودی کی جارحانہ پالیسیوں کو دیکھتے ہوئے اس کی توقع نہیں کی جاسکتی۔

Related Posts