گزشتہ کچھ دنوں سے پاکستان میں سیاسی میدان میں پرتشدد واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آیا تاہم سیاسی رہنماؤں کیلئے ضروری ہے کہ وہ جمہوری طرزِ عمل کو فروغ دیں۔
جیسے جیسے دو سیاسی جماعتوں یا گروہوں کے مابین کشیدگی بڑھے، سیاستدانوں کی یہ ذمہ داری بن جاتی ہے کہ وہ ملک اور اس کے عوام کی بہتری کے لیے کام کریں اور مسائل کے حل کے لیے پرامن طریقے استعمال کریں۔
سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے انتخابات کے حالیہ مطالبے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے منفی ردعمل نے سیاسی منظر نامے میں تناؤ بڑھا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں کی بعد ازاں گرفتاریوں نے تنازعہ کو مزید ہوا دی ہے۔ سابق وزیر علی زیدی کی حالیہ گرفتاری کی پی ٹی آئی رہنماؤں کی جانب سے شدید مذمت کی گئی ہے۔
اس سیاسی بحران کے مابین جماعت اسلامی کے رہنما سراج الحق نے وزیر اعظم شہباز شریف اور سابق وزیر اعظم عمران خان دونوں کے ساتھ مذاکرات میں شامل ہو کر ایک فعال انداز اپنایا ہے، اور ان پر زور دیا ہے کہ وہ مسائل کو پرامن طریقے سے حل کریں۔ اس کے نتیجے میں پی ٹی آئی نے جماعت اسلامی کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے، اس امید کے ساتھ کہ یہ اقدامات بالآخر ملک میں سیاسی بحران کے حل کی طرف بڑھیں گے۔
یہ تسلیم کرنا ضروری ہے کہ جمہوری طرز عمل اور طریقے پاکستان جیسے جمہوری ملک کی بنیاد ہیں۔ بد سلوکی اور تشدد کا سہارا صرف قوم کو مزید تقسیم کرسکتا ہے اور اس کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرسکتا ہے۔ سیاسی رہنماؤں کو اپنے اختلافات کو دور کرنے کے لیے بامعنی بات چیت، گفت و شنید اور سمجھوتہ کرتے ہوئے ذمہ دارانہ طرزِ عمل اور بالغ نظری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
سیاسی تنازعات کو تصادم اور گرفتاریوں کا سہارا لینے کے بجائے کھلی بات چیت، مذاکرات اور شفاف انتخابات جیسے جمہوری طریقوں سے حل کیا جانا چاہیے۔ جمہوری عمل مختلف نقطہ نظر کے اظہار کو ترویج دیتا ہے، اور بات چیت اور اتفاق رائے کے ذریعے دو مختلف الخیال جماعتیں بھی کوئی ایک ایسا نکتہ تلاش کرسکتی ہیں جس پر دونوں متفق ہوسکیں۔
تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے انفرادی مفادات پر ملک اور اس کے عوام کی فلاح و بہبود کو ترجیح دیں۔ سیاسی فیصلہ سازی میں شہریوں کے مفادات کو ہمیشہ سرفہرست ہونا چاہیے اور سیاسی رہنماؤں کو ایسے حل تلاش کرنے کے لیے کام کرنا چاہیے جو مجموعی طور پر قوم کی بھلائی کو فروغ دیں۔
چونکہ پاکستان اس وقت ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کے لیے تحمل کا مظاہرہ کرنا، پرسکون رہنا اور تعمیری بات چیت کرنا ضروری ہے۔ اس سے ایک پرامن اور سازگار ماحول کو فروغ ملے گا تاکہ کشیدگی کا شکار سیاستدانوں کے مابین افہام و تفہیم پیدا کی جاسکے۔