پاکستان کی آزادی کو 25 برس سے زائد عرصہ گزر چکا تھا جب قوم شہید ذوالفقار علی بھٹو کی زیرِ قیادت 1973ء کے آئین کو حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی جسے گزشتہ روز 50 برس مکمل ہوئے۔
تاہم اس نصف صدی کا قصہ یہ ہے کہ ملکی آئین 1973 ء جسے شہریوں کو بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے تحفظ کا ذمہ دار سمجھا جارہا تھا، بدقسمتی سے اپنے وعدے پورے نہیں کرسکا۔ گزشتہ 50 سالوں سے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ہماری ثقافت کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔
من حیث القوم ہم غریب کو اس کا حق دینے اور آئین میں درج انصاف و مساوات کے اصولوں کو برقرار رکھنے اور ان کی پیروی کرنے میں ناکام رہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ قوم قانون کی پابندی سے متعلق اپنے رویوں پر نظرِ ثانی کرے تاکہ ہم اقوامِ عالم میں قانون کی پابند قوم کی حیثیت سے روشناس ہوسکیں۔
اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہم ایسا معاشرہ بنانے میں بھی ناکام ہوچکے ہیں جو السام کی اقدار پر کاربند ہو۔ ہمارے اعمال نے ہمیں بنانا ری پبلک بنا دیا جہاں قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں معمول کا حصہ بنتی جارہی ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ملک پر جنگل کا قانون نافذ ہے جہاں طاقتور اپنی مرضی سے جو چاہے کرسکتا ہے تاہم غریب قانون کے مطابق اپنا حق بھی حاصل کرنے سے محروم ہوجایا کرتا ہے۔
تمام تر تشویشناک صورتحال کے برعکس ملکی آئین ہمیں ایک جمہوری اور انصاف پسند معاشرے کی بنیاد فراہم کرتا ہے، یہ الگ بات کہ ماضی کی اور موجودہ حکومتیں قانون کو مکمل طور پر نافذ کرنے میں جزوی یا مکمل طور پر ناکام نظر آئیں۔
فی الحقیقت مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی عوام سے لے کر سیاستدان اور پارلیمنٹیرینز تک کوئی بھی قانون کی پاسداری کیلئے راضی نہیں، نظامِ قانون کی اس کمزوری پر طاقتور کمزور کا استحصال کرتا ہے جبکہ انصاف صرف امیروں اور بااثر افراد کیلئے ہے۔
آئینِ پاکستان کی 50ویں سالگرہ کے موقعے پر ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ ہم ایک بہتر قوم کیسے بن سکتے ہیں؟ بطور قوم ہمیں اپنے احتساب اور خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ کیا ہم آئین میں درج اصولوں کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں؟ تاکہ ہم ایک ایسی قوم بن سکیں جو قانون کی پاسداری کو اپنا شعار بنائے۔
ابتدا سیاسی رہنماؤں کو کرنی ہوگی جو قانون کی پاسداری اور احتساب کے کلچر کو فروغ دے کر ایک مثال قائم کرسکتے ہیں۔ انہیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ قانون و انصاف کی بالادستی کے ادارے اپنا کام بر وقت اور درست طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔
اداروں کو بدعنوانی سے پاک بنایا جائے۔ عوام بھی انصاف پسند معاشرے میں اپنا کردار ادا کریں۔ آئیے ہم ایک ایسی قوم بنیں جو دوسروں کے حقوق کا احترام کرتی اور رواداری کو اپنا شعار سمجھتی ہے۔ معاشرے کے ہر طبقے کی قانون تک رسائی مساوی ہونی چاہئے۔