شہادت کے 44 سال، قوم ذوالفقار علی بھٹو کو آج بھی کیوں بھول نہیں پائی؟

مقبول خبریں

کالمز

zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

صوبہ سندھ کے تاریخی شہر لاڑکانہ میں پیدا ہونے والے ذوالفقار علی بھٹوکو ملک کی تاریخ کا مقبول ترین وزیرِ اعظم ہونے کا اعزاز حاصل ہے کیونکہ وہ نہ صرف ایک زیرک اور منجھے ہوئے سیاستدان تھے بلکہ ایک معاملہ فہم اور بہادر حکمران بھی تھے۔

سن 1979ء میں 4 اپریل کے روز ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر چڑھا کر ان کی زندگی کا چراغ گل کردیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو عدالت سے سزائے موت پا کر بھی قوم کے شہید کہلائے، گویا مر کر بھی امر ہو گئے۔ آئیے ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت اور سیاست کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں جن کی 44 ویں برسی آج منائی جارہی ہے۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم

لاڑکانہ میں ذوالفقار علی بھٹو 5 جنوری 1928ء کے روز پیدا ہوئے۔ان کے والد سرشاہنواز بھٹو جوناگڑھ کی مسلم ریاست میں دیوان تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو 6 سال کی عمر میں کراچی بشپ ہائی اسکول میں داخل کرایا یگا۔ 1937ء میں بھٹو خاندان ممبئی منتقل ہوا اور ذوالفقار علی بھٹو کو کینڈرل ہائی اسکول میں داخلہ مل گیا۔

قیامِ پاکستان کے سال 1947ء کے آغاز میں ذوالفقار علی بھٹو اعلیٰ تعلیم کیلئے لاس اینجلس کی یونیورسٹی میں داخل ہوئے۔ 1949ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے برکلے یونیورسٹی آف سٹی سے آنرز کی ڈگری سیاسیات میں حاصل کی۔ 

وطن واپسی اور عملی زندگی کا آغاز 

عملی زندگی کا آغاز کرنے سے قبل جب ذوالفقار علی بھٹو وطن واپس لوٹے تو درس و تدریس کو اپنا پیشہ بنا لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو قانون پڑھایا کرتے تھے۔ اس دوران انہوں نے کھیل، تعلیم، تاریخ، فلسفہ، سیاست اور شخصیات پر لکھی گئی کتابوں کا بھی مطالعہ کیا۔

مطالعے کی عادت سے شہید ذوالفقار علی بھٹو ایک انسانیت دوست شخصیت بن گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پہلی بیوی شیریں امیر بیگم سے کوئی اولاد نہیں ہوئی تاہم دوسری بیوی نصرت بھٹو کے بطن سے 4 بچے پیدا ہوئے۔

بے نظیر بھٹو، مرتضیٰ بھٹو، صنم بھٹو اور شاہنواز بھٹو میں سے بے نظیر بھٹو آگے چل کر ملک کی وزیرِ اعظم بنیں اور اپنے والد کی طرح شہید کی گئیں۔ 

سیاسی زندگی  اور شخصیت 

ذوالفقار علی بھٹو نے 16 دسمبر 1971ء کو نامساعد حالات میں ملک کی باگ ڈور سنبھالی۔ سانحہ مشرقی پاکستان کے بعد بچہ کھچا ملک صرف 6 سال میں مستحکم اور مضبوط بن گیا۔ بھٹو اپنے فرائض ہمت اور بلند حوصلگی سے سرانجام دے رہے تھے۔

کوئی بھی سیاسی شخصیت کتنی تعلیم یافتہ ہوتی ہے، اس کی ڈگریاں بتاتی ہیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو نے ثابت کیا کہ خارجہ امور کے بہترین ماہر تھے جو صرف 30 برس کی عمر میں وزیرِ خارجہ بن گئے۔ آج تک پاکستان کو خارجہ امور میں بھٹو کی ٹکر کا کوئی شخص دستیاب نہیں ہوسکا۔

وہ ایک قادر الکلام خطیب، بے مثال رہنما اور بین الاقوامی تعلقات کے ماہر تھے۔ لاکھوں انسانوں کے اجتماع سے گھنٹوں بڑی سنجیدگی، معاملہ فہمی اور بے ساختگی سے خطاب کرتے تھے۔ متعدد بار پاکستان کی نمائندگی کی اور اقوامِ عالم کو حیران کردیا۔

دنیا بھر میں پاکستان کے روابط اور خارجہ پالیسی کو جس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے دیکھا، کوئی اور سیاسی رہنما نہ دیکھ سکا۔ چین، ایران، انڈونیشیاء اور عرب ممالک سے بے مثال روابط بھٹو دور میں قائم کیے گئے۔

امریکا اور چین جس طرح آج ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہیں، بھٹو دور میں بھی یہی صورتحال تھی، ذوالفقار علی بھٹو نے دونوں ممالک کو قریب لانے کیلئے اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر پاک چین دوستی اور مسلم امت کی یکجہتی بھٹو عہد کے اہم کارنامے قرار دئیے جاسکتے ہیں۔ 

ملک کیلئے ترقیاتی منصوبے

شہید بھٹو کے دور میں ملکی ترقی کے بہت سے منصوبے شروع اور مکمل کیے گئے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام، اسٹیل ملز، معیشت کی بحالی، تعلیمی اداروں کا جال، میڈیکل کالجز، انگریزی خطابات کا خاتمہ اور زرعی اصلاحات کی گئیں۔

اسی دور میں محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ کیا گیا، عوام میں سیاسی شعور بیدار ہوا، افرادی قوت بیرونِ ملک برآمد کی گئی۔ ملک کو ایک متفقہ آئین 1973ء دیا گیا اور قادیانی آئینِ پاکستان کی رو سے غیر مسلم قرار دے دئیے گئے۔

ختمِ نبوت ﷺ کا اقرار بھٹو دور میں ہر کلیدی عہدے کے حلف نامے میں شامل ہوا، شناختی کارڈ جاری کیا گیا، ایسے ہی منصوبوں کی بدولت ذوالفقار علی بھٹو نے عوام میں بے مثال شہرت پائی۔ 

فوج سے اختلافات

صدرِ پاکستان کا عہدہ سنبھالتے ہی ذوالفقار علی بھٹو نے یحییٰ خان کو انہی کے مکان میں نظر بند کرتے ہوئے جنرل گل حسن کو چیف آف آرمی اسٹاف بنا دیا۔ بھٹو پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے تینوں مسلح افواج کے 44سینئر افسران کو پیٹ باہر آنے کا کہہ کر برخاست کردیا تھا۔

مشرقی پاکستان میں شکست کھانے کے بعد پاک فوج کے حوصلے پست تھے اور ذوالفقار علی بھٹو پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے فوج کے پست حوصلوں کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی مرضی سے مختلف ایسے احکامات صادر کیے جو جمہوریت کی جگہ آمریت کی نشاندہی کرتے تھے۔

جنرل ضیاء الحق اور آرمی چیف کا عہدہ

جب جنرل ٹکا خان کی بحیثیت چیف آف آرمی اسٹاف مدتِ ملازمت ختم ہوئی تو انہوں نے نئے آرمی چیف کیلئے 7 افراد کی فہرست بھجوائی جس میں جنرل ضیاء الحق شامل نہیں تھے کیونکہ جنرل ضیاء نئے نئے لیفٹیننٹ جنرل بنے تھے۔

پھر بھی ذوالفقار علی بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو آرمی چیف بنایا کیونکہ بعض میڈیا رپورٹس کے مطابق ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کی آؤ بھگت اور ہاں میں ہاں ملانے کے اعتبار سے ہر ممکن کسر پوری کی تھی۔

معروف مصنف اوون بینٹ جونز کے مطابق متعدد مرتبہ جنرل ضیاء الحق نے ذوالفقار علی بھٹو کو کئی بار تلوار پیش کی بلکہ ایک بار انہیں آرمرڈ کور کا تنخواہ نہ لینے والا چیف کمانڈر تک قرار دیا اور ان کیلئے فوج کی وردی بھی سلوائی۔ 

سزائے موت اور پھانسی

ملک کے وزیرِ اعظم کی حیثیت سے ذوالفقار علی  بھٹو نے 14 اگست 1973ء کو حلف اٹھایا۔ 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے باعث ملک خانہ جنگی کی سی کیفیت کا شکار تھا۔

اسی دوران آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے مارشل لاء نافذ کردیا۔ ستمبر 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نواب محمد احمد خان کے قتل کی سازش کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ عدالت نے بھٹو کو سزائے موت سنائی اور رحم کی اپیل تک مسترد ہوگئی۔

پھانسی کی سزا پانے والے ذوالفقار علی بھٹو کی بہن شہربانو امتیاز نے صدر جنرل ضیاء الحق سے رحم کی اپیل کی جس کے جواب میں یکم اپریل 1979ء کو جنرل ضیاء نے سرخ روشنائی سے 3 الفاظ لکھ دئیے۔

آرمی چیف جنرل ضیاء الحق نے لکھا کہ پٹیشن اِز ریجیکٹیڈ یعنی اپیل مسترد کی جاتی ہے جس کے بعد 4 اپریل 1979ء کو ملک کے مقبول ترین وزیرِ اعظم کو پھانسی دے دی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کو قوم ہمیشہ یاد کرے گی۔ 

Related Posts