تین روز قبل بیجنگ سے ایک ایسی خبر بریک ہوئی جس نے عالمی سیاست میں بڑا ارتعاش پیدا کیا اور ارتعاش بھی ایسا کہ مشرق اس سے خوشگوار حیرت میں ڈوب گیا، جبکہ مغرب کی صورتحال یہ رہی کہ خبربریک کرنے والے ہر نیوز اینکر کے چہرے پر ہی ہوائیاں اڑ رہی تھیں۔
مغربی میڈیا کے فوری فطری ردعمل کا اندازہ اسی سے لگا لیجئے کہ ہر بڑے چینل نے فوری طور پر اپنے وائٹ ہاؤس میں تعینات نمائندے کو آن لائن لے لیا تاکہ یہ معلوم کیا جاسکے کہ اس ارتعاش کے اثرات عالمی سیاہ کاروں کے سفید گھر میں کیسے ہیں؟
خبر یہ بریک ہوئی تھی کہ چین کے دارالحکومت بیجنگ میں چھ روز سے سعودی عرب اور ایران کے مابین خفیہ مذاکرات جاری تھے جس کا نتیجہ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کی بحالی کے سمجھوتے کی صورت نکلا۔ اس پیش رفت کے ہمہ جہت عالمی اثرات ہیں۔ مگر آپ سب سے پہلے اس کا سب سے بنیادی مطلب ہی دیکھ لیجئے۔جس طرح سماجی سطح پر مختلف کمیونٹیز یا طبقات کا ایک بڑا ہوتا ہے جو ایک لحاظ سے ان پر راج کرتا ہے بعینہٖ عالمی سطح پر بھی ہوتا ہے۔ جس طرح کمیونٹی کا ایک چوہدری یا حضرت ہوتا ہے جسے ناراض کرنے کا مطلب اپنی زندگی عذاب کرنے کے مترادف ہوتا ہے بعینہٖ عالمی سیاست میں بھی ہوتا ہے۔ جس طرح کمیونٹی کی سطح پر یہ ہوتا ہے کسی بھی بڑے تنازع کی صورت میں کمیونٹی کے بڑے کی ثالثی میں تنازعات طے کر لئے جاتے ہیں، بعینہٖ عالمی تنازعات میں بھی ہوتا ہے۔ اور سب سے اہم یہ کہ جس طرح مختلف لوگ مختلف طرح کی جائز یا سازشی سرگرمیوں کے ذریعے اس کوشش میں لگے ہوتے ہیں کہ کمیونٹی کا بڑا بن جائیں بالکل اسی طرح عالمی سطح پر بھی ہوتا ہے۔
ہماری آج کی دنیا کے بڑے چوہدری صاحب کا نام امریکہ ہے۔ یہ تو ہم سب ہی جانتے ہیں کہ اپنی یہ چوہدراہٹ برقرار رکھنے کے لئے امریکہ کو کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ماضی قریب کی تاریخ ہی یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ عالمی تنازعات کو جنم دینے اور پھر انہیں اپنی منشاء اور مفادات کے مطابق حل کرنے میں امریکہ نے بے روک ٹوک دنیا کے حاکمِ اعلی جیسا کردار ادا کیا ہے۔ یوں بیجنگ سے بریک ہونے والی خبر کا پہلا مطلب تو یہی ہے کہ ایک اور چوہدری صاحب نے بھی اپنی سرگرمیوں کا باقاعدہ آغاز کردیا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس سے آگے کی بات یہ ہے کہ دنیا کے سب سے حساس خطے کے دو اہم ترین ممالک نے بڑے چوہدری صاحب پر تین حرف بھیج کر نئے چوہدری صاحب کو اپنا بڑا تسلیم کر لیا ہے۔ اور صرف یہ بھی نہیں بلکہ یہ کہ نئے چوہدری صاحب اتنے مؤثر ہیں کہ سی آئی اے، ایم آئی 6 اور موساد سمیت دنیا کی تمام انٹیلی جنس ایجنسیوں سے اتنی بڑی سرگرمی چھپائے رکھنے میں بھی کامیاب رہے۔
سادہ لفظوں میں اس کا نچوڑ یہ ہے کہ جو بائیڈن جس حالتِ منام میں روس کی فتح کے خواب دیکھ رہے تھے، اس نیند سے بیدار کرکے انہیں بتایا گیا کہ حضور! آنکھ کھولئے! مشرقِ وسطی ہاتھ سے نکل گیا۔ یہ وہی مشرقِ وسطی ہے جہاں اسرائیل کے ڈراوے دے دے کر نہ صرف یہ کہ امریکہ نے اپنے اڈے قائم کر رکھے تھے بلکہ ان عرب ممالک کو دن رات ہتھیار بھی فروخت کئے جاتے تھے۔ پھر 2011ء میں انہوں نے عرب سپرنگ کی داغ بیل ڈال کر خطے کے شیعہ ممالک کی سرپرستی کے آغاز کا منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کا مقصد عرب ممالک کی حکومتوں کے تختے الٹ کر انہیں داخلی انتشار سے دو چار کرنا تھا۔ اور اس صورتحال میں شیعہ ممالک کو خطے میں بالادستی دینی تھی۔ مگر یہ منصوبہ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، کویت اور بحرین میں ناکام ہوگیا۔ بلکہ الٹا یہ ہوا کہ سعودیوں نے شام کو گرما کر ایران کو مزاحمت کا واضح پیغام دے دیا۔ ایسے میں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار میں آئے تو آنے سے قبل ہی وہ امریکی اسٹیبلیشمنٹ سے حالتِ تصادم میں تھے۔ اس تصادم میں دونلڈ ٹرمپ نے امریکی اسٹیبلیشمنٹ کو یہ مزہ چکھا دیا کہ باراک اوباما کی مدد سے شروع ہونے والے ان کے مشرقِ وسطی کے منصوبے کو لپیٹ کر رکھ دیا۔
یوں سعودیوں کو 4 سال کی ایسی مہلت مل گئی جس کے دوران وہ خود کو مستحکم کر سکتے تھے۔ سو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے یہی کیا۔ محمد بن سلمان کی حکمتِ عملی میں سب سے اہم نکتہ یہ رہا کہ انہوں نے اس اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی بنیاد ڈال دی جو امریکہ میں بہت ہی مؤثر ہے۔ اس حکمتِ عملی کے ذریعے محمد بن سلمان نے ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی۔ پہلا یہ کہ امریکہ کی یہودی لابی کو اسرائیل کے تناظر میں اپنی طرف کر لیا جائے۔ جبکہ دوسرا یہ کہ ایران کو پیغام دیدیا کہ خود کو لاحق اسرائیلی خطرے کو ہم نے زیرو کردیا لھٰذا اب ہم آپ کے حوالے سے یکسو ہیں۔ ایسے میں امریکہ میں 2020ء کے صدارتی انتخابات سر پر آئے تو جو بائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران بڑھک مار دی کہ وہ اقتدار میں آکر سعودی عرب کو عالمی تنہائی سے دوچار کریں گے۔ اور پھر قتدار میں آتے ہی اس پر عمل بھی شروع کردیا۔ خلیج سے امریکی بحری بیڑا ہٹا دیا۔ پیٹریاٹ میزائل کی بیٹریاں ہٹا دیں اور محمد بن سلمان کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے دعوے بھی کر ڈالے۔ مگر سعودی لونڈے نے جواباً ان کا یہ حال کردیا کہ وہی بائیڈن گویا زبانِ حال سے کہتے نظر آئے۔ “بھئی ہم تو مذاق کر رہے تھے۔ اب بندہ مذاق بھی نہ کرے؟”
اگر غور کیا جائے تو صرف پچھلے ایک سال میں محمد بن سلمان نے مغربی کیمپ سے مشرقی کیمپ کی جانب جو فاصلہ طے کیا ہے وہ صدیوں کاہے جو صرف ایک سال میں طے ہوا ہے۔ اسی ایک سال میں برکس نامی غیر سفید فام عالمی اتحاد بھی تیزی سے وسعت اختیار کرتا نظر آنے لگتا ہے۔ اس اتحاد کے اہداف میں یہ بات شامل ہے کہ دنیا کو امریکی جبر سے آزاد کرانا ہے اور ایک ایسا عالمی نظام لانا ہے جو جبر اور بلیک میلنگ سے پاک ہو۔ امریکی جبر میں اس کے ڈالر کا مرکزی کردار ہے اور ڈالر کی ساری طاقت سعودی تیل کے دم خم سے ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ سعودی عرب کا برکس میں جانا اور پیٹرو ڈالر پروگرام سے نکلنا وہ جھٹکا ہوگا جو امریکہ کسی طور نہیں سہہ پائے گا۔
اب اس پس منظر میں جب یہ خبر سامنے آجاتی ہے کہ سعودی عرب نے چین کی ثالثی میں ایران کے ساتھ اپنے تنازعات ختم کرنے کی جانب پیش رفت کرلی ہے۔ تو اس مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب کا برکس میں جانے کا اشارہ، اور پیٹرو ڈالر کے خاتمے کا امکان محض امکان نہیں بلکہ نوشتۂ دیوار ہے۔ اگر آپ غور کیجئے تو 70 سال تو امریکہ عرب ممالک کو اسرائیل کے ڈراوے دے کر ہتھیار فروخت کرتا رہا ہے مگر عرب سپرنگ کی ناکامی کے بعد جو صورتحال پیدا ہوئی اس کا بھی امریکہ نے ہتھیاروں کی فروخت کے لئے ہی استعمال کیا۔ اب امریکہ ایران کے ڈراوے دے کر عربوں کو ہتھیار فروخت کرنے کی راہ پر چل پڑا تھا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ ٹرمپ نے 200 ارب ڈالر کے ہتھیار سعودیوں کو ایران کا ڈراوا دے کر ہی فروخت کئے تھے۔
امریکہ کی بجائے چین کی چوہدراہٹ اختیار کرنے کا سب بڑا فائدہ وہ فرق ہے جو چین اور امریکہ کی حکمت عملی میں ہے۔ امریکی حکمت عملی میں جنگ اور خوف کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔ آپ مشرقِ وسطی سے ساؤتھ چائنا سی تک پھیلی اس کی پچھلے 70 سال کی تاریخ دیکھ لیجئے۔ وہ ممالک کو لڑاتا اور اس لڑائی میں ہتھیار فروخت کرتا نظر آئے گا۔ اگر لڑائی نہ بھی ہو تو جنگ کا ماحول وہ مستقل برقرار رکھتا ہے۔ اس کے برخلاف چین وہ ملک ہے جو اپنی پوری تاریخ کے دوران تجارت کے ذریعے ترقی پر یقین رکھنے والا ملک نظر آتا ہے۔ تاجر کو سب سے زیادہ نفرت جنگ سے ہی ہوتی ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جنگ کا مطلب ہے مارکیٹ بند ہونا۔ سو مشرقِ وسطی میں اس کی سرپرستی سے کم از کم اتنی بات تو یقینی ہے کہ امن ہر حال میں اس کی ترجیح ہوگا۔ اس ترجیح کا مطلب ہے کہ اب شام سے لے کر یمن تک پھیلی جنگ کی صورتحال بتدریج ختم ہونے کا قوی امکان پیدا ہوگیا ہے۔
اگر اس صورتحال کو برکس کے پہلو سے دیکھئے تو ایران اور سعودی عرب کی برکس میں موجودگی کا مطلب یہ ہوگا کہ برکس میں دنیا کے سب سے بڑے رقبے والا ملک روس، دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے دونوں ملک چین اور بھارت ہی نہیں بلکہ تیل اور گیس پیدا کرنے والے دنیا کے 3 بڑے ممالک روس، سعودی عرب اور ایران بھی اس اتحاد میں ہوں گے۔ یوں سٹریٹیجک نقطہ نگاہ سے یہ ایک بہت ہی طاقتور اتحاد ہوگا۔ آپ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ اس اتحاد کی طرف پاکستان کی پیش رفت کا کتنا امکان ہے؟ ہمیں لگتا ہے کہ پاکستان کے لئے یہ ایک مشکل فیصلہ ہوگا۔ کیونکہ پاکستان کی مارکیٹ امریکہ اور یورپ ہے۔ اس لئے پاکستان کوئی جلد بازی تو کسی صورت نہیں کرے گا۔
اس منظر نامے میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اب اسرائیل کا کیا بنے گا؟ کیا وہ اس جھٹکے کو قبول کرلے گا ؟ یا وہ اس پرانی حکمتِ عملی کی جانب واپس لوٹ جائے گا جس میں وہ شیعہ اور سنی دونوں ہی طرح کے ممالک سے بیک وقت الجھا نظر آتا تھا؟ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے لئے یہ جھٹکا دو لحاظ سے بہت ہی شدید ہے۔ ایک تو یہ کہ عرب ممالک سے دوستی کے معاملے میں نیتن یاہو ہی سب سے فعال اسرائیلی لیڈر رہا۔ اور دوسرا یہ کہ ان دنوں نیتن یاہو کو شدید قسم کے داخلی مسائل کا سامنا ہے۔ نتین یاہو کے خلاف پہلے ہی لوگ سڑکوں پر ہیں۔ اب وہی لوگ سعودی عرب کے دھوکے کا طعنہ بھی دیں گے۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ نیتن یاہو کو امریکی ڈیموکریٹس زہر لگتے ہیں۔ سو وہ بائیڈن سے ہاتھ نہیں ملائے گا۔ اس کے برخلاف ایک اور امکان ہے۔
وہ یہ کہ پوری دنیا میں صرف چین ہی وہ ملک ہے جس کے شہری فلسطین اور اسرائیلی دونوں جانب آزادانہ آمد و رفت کرتے ہیں۔ جس کی وجہ یہ ہے کہ چین کے دنوں ہی ممالک کے ساتھ پر اعتماد تعلقات ہیں۔ اب اگر آپ اسرائیلی نقطہ نظر سے دیکھیں تو اس کا سب سے اہم ہدف کیا ہے؟ یہی کہ اسرائیل کی مسلم ممالک سے دوستی ہوجائے اور بطور ریاست سب اسے تسلیم کرلیں۔ سو کوئی بعید نہیں کہ جلد نیتن یاہو بھی بیجنگ میں نظر آئے اور چین سے کہے کہ ہماری بھی صلح کراؤ۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو مشرقِ وسطی میں امریکہ کا بچا کھچا اثر بھی باقی نہیں رہے گا۔ مگر دلی ہنوز دور است اور مسافت سالوں کی ہے۔ اس دوران سیخ پا امریکہ بھی ہاتھ پر ہاتھ رکھے نہیں بیٹھے گا۔ جان لیوا حملوں سے لے کر بغاوتوں تک بہت سے آزمودہ ٹوٹکے اس کی زنبیل میں ہیں۔ مگر ان ٹوٹکوں پر عمل آسان بھی نہ ہوگا کیونکہ ایک بہت بڑا معاشی بحران ان کے سر پر کھڑا ہے۔ ایسے میں ایک بھی بڑے لیول کی بری خبر یہ بحران ان پر چند گھنٹوں میں ہی وارد کردے گی۔ اور اس بار یہ اس سے نکل بھی نہیں پائیں گے۔ کیونکہ گوروں کے سوا تمام ممالک پہلے ہی اس فاتحہ پڑھنے کی تیاری کئے بیٹھے ہیں۔ جس کا سب سے بڑا مشاہدہ ہم اس صورت تو کر ہی چکے کہ خانہ خالی را دیو مے گیرد کے مصداق امریکہ کے خالی کردہ سعودی گھر میں چین نامی دیو آ بیٹھا ہے!