عمران خان کا خوف

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

پاکستان کا سیاسی منظرنامہ کئی دہائیوں سے بغاوتوں، آمریتوں اور بدعنوانی سے بھرپور رہا ہے۔ تاہم حالیہ برسوں میں عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صورت میں ایک نئی سیاسی قوت سامنے آئی ہے۔

 قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان عمران خان سیاست میں داخل ہوئے اور 1996 میں پی ٹی آئی کی بنیاد رکھی۔ انہیں اپنی پارٹی کی حمایت کی بنیاد بنانے میں کئی سال لگے، کیونکہ انہیں فنڈنگ کی کمی اور ووٹروں کی عدم دلچسپی سمیت کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔

آگے چل کر 2018 میں پی ٹی آئی نے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور عمران خان پاکستان کے وزیر اعظم بن گئے۔ یہ پہلا موقع تھا جب روایتی سیاسی جماعتوں کے علاوہ کوئی اور پارٹی  ووٹنگ کے ذریعے اقتدار میں آئی تھی۔ تاہم وزیر اعظم کے طور پر عمران خان کا دور مختصر رہا کیونکہ انہیں 2022 میں ایک قانونی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے ہٹا دیا گیا تھا۔

قانونی عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے عمران خان کی برطرفی ان کے سیاسی کیریئر کے لیے ایک دھچکا تھا، لیکن اس سے یہ تاثر بھی پیدا ہوا کہ پاکستان میں جمہوریت کو بھی فروغ مل رہا ہے۔ ان کی برطرفی کے بعد شہباز شریف وزیر اعظم بنے لیکن ان کا دور معاشی بدحالی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی نے متاثر کیا۔ پاکستان عوام حکومت کی جانب سے قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں ناکامی کے باعث مایوس ہیں۔ عوام کا عدم اطمینان بڑھتی ہوئی مہنگائی کے ساتھ  بڑھتا چلا گیا۔

عمران خان نے مطالبہ کیا کہ انتخابات جلد ہونے چاہئیں  اور وہ کسی قسم کی تاخیر نہیں چاہتے۔ ان کی پارٹی نے پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیوں کو تحلیل بھی کردیا، جس سے ملک میں سیاسی بحران مزید بڑھ گیا۔

حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے عمران خان اور ان کی پارٹی پی ٹی آئی کے حق میں فیصلہ سنایا اور انتخابات کرانے کا حکم دیا۔ اس فیصلے نے حکومت کو تشویش میں ڈال دیا ہے، اتوار کے روز عمران خان کو گرفتار کرنے کی بھی کوشش کی گئی۔

دلچسپ طور پر عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹائے جانے کے بعد وہ مزید خطرناک ہو جائیں گے لیکن پی ڈی ایم حکومت نے ان کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ اب سپریم کورٹ کا فیصلہ عمران خان کے حق میں آنے اور حکومت کی جانب سے انہیں گرفتار کرنے کی کوششوں سے لگتا ہے کہ پاکستان کے سیاستدان ان سے خوفزدہ ہیں۔

غور کیا جائے تو اگر حکومت عمران خان کو گرفتار نہیں کرتی تو موجودہ سیاسی بحران کا پرامن حل نکل سکتا ہے۔ تاہم اگر یہ گرفتاری عمل میں لائی جاتی ہے، تو یہ عمل ملک میں مزید بدامنی اور عدم استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔

حالیہ برسوں میں پی ٹی آئی کے باعث ملکی سیاست میں جو اتار چڑھاؤ دیکھنے کو ملا، وہ کسی بھونچال سے کم نہیں۔ اگرچہ وزیراعظم کے عہدے سے  عمران خان کی برطرفی ایک دھچکا تھا، لیکن ان کی پارٹی کی حالیہ عدالتی فتح اور حکومت کی جانب سے انہیں گرفتار کرنے کی کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ روایتی سیاسی جماعتیں عمران خان سے خوفزدہ ہیں۔ پاکستانی سیاست کا مستقبل چاہے غیر یقینی ہو، عمران خان کا خوف واضح ہوچکا ہے۔

Related Posts