سیاست دان، ارکان پارلیمنٹ، عدلیہ، نظام عدل اور فوج جمہوری ریاست کے کام کرنے کے لیے اہمیت کے حامل جمہوریت کے ستون ہیں، اگر یہ ستون بجائے ریاست یا جمہوریت کو سہارا دینے کے آپس میں ہی دست و گریباں ہوجائیں تو ریاست کا کیا ہوگا؟
بعض صورتوں میں جمہوریت کا ایک اہم ستون غیر مستحکم ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں پورے نظام پر نمایاں اثر پڑتا ہے۔ ایسے حالات میں جمہوریت کے دیگر ستونوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور غیر مستحکم ستون کا ساتھ دیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس اصول کو درست طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا۔
صحافت بھی جمہوری نظام کا ایک لازمی حصہ ہے، اور اسے اکثر چوتھا ستون بھی کہا جاتا ہے۔ صحافی عوام کو آگاہ کرنے اور اقتدار میں رہنے والوں کو جوابدہ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تاہم، پاکستان میں صحافیوں کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے، جن میں سنسر شپ، ہراساں کرنا اور یہاں تک کہ تشدد اور قتل و غارت بھی شامل ہے۔ یہ صورت حال ناقابل قبول ہے، اور یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ صحافیوں کو تحفظ فراہم کرے اور ان کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
دوسری جانب پاکستان میں سیاسی نظام برسوں سے بوسیدہ بیساکھیوں پر چل رہا ہے۔ جب یہ کمزور ہو جاتا ہے تو عدلیہ اس پر حملہ کرتی ہے اور سیاست دان بھی موقع ملنے پر عدلیہ پر حملہ کرتے ہیں۔ اس سے ریاست کے مختلف ستونوں کے درمیان بداعتمادی اور دشمنی کا ماحول پیدا ہوتا ہے جس کے ریاست کے استحکام کے لیے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔
حال ہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کیا گیا۔ یہ ریفرنس مبینہ طور پر ایک وکیل میاں داؤد کی جانب سے دائر کیا گیا تھا، لیکن حکمراں جماعت ن لیگ کے وفاقی وزراء نے جسٹس نقوی سمیت دو ججوں کو اپنی پارٹی کے خلاف متعصب قرار دیا ہے۔
حکمران جماعت اور وفاقی وزراء کے اس طرح کے اقدامات سے جمہوری نظام اور اس کے اداروں پر مضر اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ سسٹم کو آسانی سے کام کرنے دینا اور تمام مسائل کو مناسب فورمز کے ذریعے حل کرنے کی اجازت دینا بہت ضروری ہے۔ عدلیہ پر حملہ کرکے حکمران جماعت مسائل کو مزید بڑھا رہی ہے اور ملک میں جمہوریت کی راہ میں مزید رکاوٹیں کھڑی ہو رہی ہیں۔
یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جمہوریت کے تمام ستون ریاست کے استحکام اور کام کاج کے لیے یکساں طور پر اہم ہیں۔ جب ایک ستون غیر مستحکم ہو جائے تو دوسرے کو آگے آنا چاہیے اور اس کی حمایت کرنا چاہیے۔ اداروں کی آزادی کا احترام کرنا اور انہیں بغیر مداخلت کے کام کرنے دینا ضروری ہے۔
سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور ان کے اقدامات ہمیشہ ریاست اور اس کے شہریوں کے مفاد میں ہونے چاہئیں۔ مل کر کام کرنے سے ہی ہم اپنے جمہوری نظام کی مضبوطی اور پائیداری کو یقینی بنا سکتے ہیں۔