تحریکِ انصاف حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے والا فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

تحریکِ انصاف حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے والا فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟
تحریکِ انصاف حکومت کے لیے مشکلات پیدا کرنے والا فارن فنڈنگ کیس کیا ہے؟

اپوزیشن جماعتوں اور متعدد سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق فارن فنڈنگ کیس تحریکِ انصاف کے گلے کی ہڈی ثابت ہوسکتا ہے۔ اگر کیس کا فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف آیا تو وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ ساتھ وفاقی کابینہ اور اراکینِ اسمبلی بھی نااہل قرار دئیے جاسکتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم وزیر اعظم اور دیگر وفاقی وزراء کے خلاف دائر فارن فنڈنگ کیس کے دیگر پہلوؤں کا جائزہ لیں، یہ ضروری ہے کہ ہم کیس کا تاریخی پس منظر دیکھ لیں۔ 

فارن فنڈنگ کیس کا تاریخی پس منظر

فارن فنڈنگ کا مطلب ہے غیر ملکی امداد جس کے خلاف 2014ء میں تحریکِ انصاف کے منحرف رکن اکبر ایس بابر نے الیکشن کمیشن میں درخواست دائر کی۔ اکبر ایس بابر نے الزام لگایا کہ تحریکِ انصاف میں اندرونی مالی بے ضابطگیاں پائی جاتی ہیں جن کا انسداد ضروری ہے۔

درخواست گزار اکبر ایس بابر نے مؤقف اختیار کیا کہ تحریکِ انصاف نے ممنوعہ ذرائع سے فنڈز وصول کرکے لاکھوں ملین ڈالرز کی بذریعہ ہنڈی منتقلی کے لیے 2 آف شور کمپنیوں کا نام استعمال کیا۔

اکبر ایس بابر کے مطابق تحریکِ انصاف کے بینک اکاؤنٹس میں 2 آف شور کمپنیوں کے ذریعے غیر قانونی طور پر پیسہ بیرونِ ملک سے پاکستان منتقل ہوا۔ لہٰذا تحریکِ انصاف کے تمام عہدیداران جلسے جلوسوں اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں جو رقم استعمال کرتے رہے، وہ غیر قانونی ہے۔اس کیس کے تحت  ایسے تمام عہدیداروں، پارٹی رہنماؤں بشمول چیئرمین پی ٹی آئی (وزیر اعظم عمران خان) کو نااہل قرار دیا جاسکتا ہے۔

Image result for Imran Khan

تحریکِ انصاف کے سابق مرکزی نائب صدر اور سابق سیکریٹری اطلاعات اکبر ایس بابر نے یہ الزام بھی عائد کیا ہے کہ بھارت اور اسرائیل سمیت متعدد ممالک سے غیر قانونی ذرائع سے تحریکِ انصاف کو رقم وصول ہوئی۔ اس کے علاوہ پارٹی عہدیداران بشمول عمران خان بدعنوانی (کرپشن) میں ملوث بھی رہے ہیں۔ 

کیس پر تحریکِ انصاف کا فوری ردِ عمل

 فوری ردِ عمل جو تحریکِ انصاف کی طرف سے فارن فنڈنگ کیس پر آیا، وہ یہ تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی  عمران خان (جو اُس وقت وزیر اعظم نہیں بنے تھے)  کرپشن سے پاک شخصیت ہیں جن کے کردار پر کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ پارٹی رہنماؤں کے بیانات میں فارن فنڈنگ کیس کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اسے فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔

Image result for election commission of pakistan

الیکشن  کمیشن کا دائرہ اختیار چیلنج

پی ٹی آئی نے 8 اکتوبر 2015ء کو الیکشن کمیشن  آف پاکستان کے دائرہ اختیار کو چیلنج کرتے ہوئے یہ مؤقف اختیار کیا کہ کمیشن سیاسی جماعتوں کے فنڈز کی چھان بین کے لیے باضابطہ فورم نہیں ہے، نہ ہی اسے یہ اختیار حاصل ہے کہ مالی بے ضابطگیوں پر کوئی ایکشن لے سکے، تاہم الیکشن کمیشن نے یہ اعتراض مسترد کردیا۔

الیکشن کمیشن کی طرف سے یہ مؤقف سامنے آجانے کے بعد کہ کمیشن کو پارٹی فنڈز پر تحقیق و تفتیش کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے بلکہ وہ اس کے خلاف ایکشن بھی لے سکتا ہے، تحریکِ انصاف نے دوسری راہ اختیار کی۔

درخواست گزار کی حیثیت پر سوال

کمیشن کے دائرۂ کار کو مکمل طور پر تسلیم نہ کرتے ہوئے 26 نومبر 2015ءکو الیکشن کمیشن نے ایک اور درخواست دائر کی جو الیکشن کمیشن کی بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ میں جمع کروائی گئی جس میں کمیشن کے ساتھ ساتھ درخواست گزار کی مدعیت پر بھی سوال اٹھایا گیا۔ کہا گیا کہ اکبر ایس بابر کس حیثیت سے تحریکِ انصاف پر انگلی اٹھا رہے ہیں؟ کیا تحریکِ انصاف کی فارن فنڈنگ سے ان کا کوئی براہِ راست تعلق ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی ہائی کورٹ نے ڈیڑھ سال کی طویل مدت سے فریقین کے دلائل سننے کے ساتھ ساتھ ان پر اپنے ریمارکس جاری رکھے، تاہم کیس کا کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوسکا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ

بعد ازاں 17 فروری 2017ء کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے تحریکِ انصاف کا مؤقف مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن کے دائرۂ اختیار اور درخواست گزار کی حیثیت پر سوالات مسترد کردئیے۔

فارن فنڈنگ کیس کا نتیجہ

واضح رہے کہ تحریکِ انصاف کے خلاف اکبر ایس بابر نے مختلف ممالک سے وصول کیے گئے فنڈز کی تفصیلات بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو فراہم کردی ہیں لیکن کیس کو 5 سال کا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود اس کاکوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا۔ تحریکِ انصاف سے متعدد بار پارٹی فنڈز کی تفصیلات طلب کی گئیں، لیکن ہمیشہ اس عمل کو حیلے بہانوں کی نذر کردیا گیا۔

Image result for Foreign Funding Case

موجودہ وزیر اعظم عمران خان یہ بیانِ حلفی بھی جمع کروا چکے ہیں کہ وہ پارٹی اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے عام شہریوں کو جوابدہ نہیں ہیں، لیکن ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو پارٹی فنڈز کی جانچ پڑتال کا مجاز قرار دے دیا۔ 2019ء تک الیکشن کمیشن 24 بار تحریری طور پر پی ٹی آئی کو غیر ملکی فنڈز کی تفصیلات مہیا کرنے کی ہدایت کرچکا، لیکن اس پر کوئی عمل درآمد آج تک نہ ہوسکا۔

قانون کیا کہتا ہے؟

سیاسی پارٹیز آرڈر 2002ء کی دفعہ 13 کے تحت الیکشن کمیشن میں بینک اکاؤنٹس کی آڈٹ رپورٹ جمع کروانا ضروری ہے جس میں سیاسی پارٹیوں کو کوئی رقم کہاں سے حاصل ہوئی، اثاثہ جات کیا ہیں اور ان پر قرض اور واجبات کی تمام تر تفصیلات شامل ہوتی ہیں، لیکن زیادہ تر یہ تفصیلات بتانے سے گریز کیا جاتا ہے، یا ان پر غلط بیانی کی جاتی ہے۔

Image result for Law

ہر سیاسی پارٹی کے سربراہ پر یہ لازم ہوتا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ایک سرٹیفیکیٹ جمع کروائے جس میں یہ تحریر ہوتا ہے کہ تمام تر مالی تفصیلات درست فراہم کی گئی ہیں اور ان میں کسی قسم کا تضاد، بے ضابطگی یا بدعنوانی نہیں پائی جاتی۔

مذکورہ آرڈر (پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002ء) کی شق 15 کے تحت وفاقی حکومت کو اختیار دیا گیا ہے کہ ایسی کسی بھی سیاسی جماعت کو تحلیل کرنے کا ڈیکلریشن جاری کرے جسے غیر ملکی فنڈز دئیے جاتے ہوں یا وہ پاکستان کے خلاف اقدامات بشمول دہشت گردی یا انتشار پھیلانے میں مصروف ہو۔

تحریکِ انصاف کو فارن فنڈنگ کیس سے کیا خطرہ ہے؟

سب سے اہم سوال یہ ہے کہ تحریکِ انصاف کو فارن فنڈنگ کیس سے فوری طور پر کیا خطرہ درپیش ہے جس سے بچاؤ کے لیے مختلف جواز گھڑے جاتے ہیں۔

دراصل قانون کے مطابق غیر ملکی فنڈنگ ثابت ہونے پر کسی بھی سیاسی پارٹی کی ملک سے وابستگی پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے، لہٰذا خود وفاقی حکومت کے جاری کردہ ڈیکلریشن کے بعد 15 روز کے اندر اندر یہ معاملہ سپریم کورٹ میں پہنچ جاتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ کرے کہ پارٹی کی تحلیل ضروری ہے تو نہ صرف یہ کہ سیاسی جماعت کے طور پر تحریکِ انصاف یا کسی بھی پولیٹیکل پارٹی کا وجود باقی نہیں رہتا بلکہ اس جماعت کے جھنڈے تلے انتخاب لڑ کر قومی و صوبائی اسمبلی یا سینیٹ کے اراکین یا وزاراء بننے والے رہنماؤں کو اپنے اپنے عہدوں سے فارغ ہونا پڑتا ہے، اور یہی وہ سب سے اہم مسئلہ ہے جو تلوار بن کر پی ٹی آئی وزراء اور اعلیٰ وفاقی و سیاسی قیادت کے سر پر لٹک رہا ہے۔ 

Related Posts