ہارا ہوا گھوڑا

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

گوگل نیوز پر ہمیں فالو کریں

اسمبلیوں سے استعفے دینے یا انہیں توڑنے کی سیاست کے شوقین پی ٹی آئی کے سربراہ کو قومی اسمبلی کے محاذ پر بڑی خجالت کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ عین اس وقت جب ایم کیو ایم اپنی روایتی بلیک میلنگ والی گھٹیاسیاست پر عمل پیرا تھی ، خان صاحب نے قومی اسمبلی میں واپسی کا اعلان داغ دیا۔

ممکن ہے خان صاحب کا اعلان اور ایم کیو ایم کی بلیک میلنگ کسی ایک منصوبے کا حصہ نہ ہو، لیکن پنجاب اسمبلی کے حوالے سے جس طرح اچانک بازی پلٹی تھی اس سے خان صاحب کے اعلان اور ایم کیو ایم کی بلیک میلنگ سے تاثر کسی منصوبے کا ہی قائم ہوا تھا۔ مگر ہوا کچھ یوں کہ جوں ہی خان صاحب نے قومی اسمبلی میں واپسی کا اعلان کیا، اسپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے دو قسطوں میں پی ٹی آئی کے 70 ارکان کے استعفے منظور کر لئے اور توقع ہے کہ ایک قسط مزید بھی خان صاحب کو دی جائے گی۔

خان صاحب کو یہ جھٹکا اس لئے کھانا پڑا کہ پی ڈی ایم انہیں مسلسل قومی اسمبلی میں لوٹنے کی ترغیب دیتی آئی تھی۔ وہ اتنی سی بات نہ سمجھ سکے کہ وہ ترغیب تو اس لئے تھی کہ خان صاحب سسٹم گرانے کی بات چھوڑ کر اس کا حصہ بنیں۔ لیکن جب انہوں نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑ دیں اور وہ بھی عام انتخابات والے سال تو کوئی انہیں قومی اسمبلی میں کیوں چھوڑے گا؟ قومی اسمبلی کو کسی کے ضد اور ہٹ دھرمی والے کھیل کا میدان کیوں بننے دے گا؟

خان صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں قومی اسمبلی صرف اسی صورت عزیز ہے جب اس سے ان کا اقتدار ممکن ہو۔ ان کی حکومت نہ ہو تو یہ تقاریر میں اسی اسمبلی پر لعنت تک بھیج دیتے ہیں۔ صرف لعنت ہی کیا اسمبلی بلڈنگ پر باقاعدہ حملہ بھی کرا دیتے ہیں۔ صرف خان صاحب ہی کیا ان کے تہذیب سے عاری شیخ رشید جیسے اتحادی بھی آگ لگا دو، جلا دو، گرادو جیسے ہشکارے دیتے پائے جاتے ہیں۔ ہوس اقتدار اور وہ بھی اس درجے کا ؟ خدا کی پناہ۔ جمہوری نظام میں یہی تو خوبی ہے کہ اس میں کسی ایک خاندان، گروہ یا جماعت کا اقتدار پر مستقل قبضہ نہیں رہ سکتا۔ اس نظام کے تحت اقتدار صرف ایک ہی صورت طول پکڑ سکتا ہے، اور وہ یہ کہ کار کردگی شاندار ہو۔ جرمنی میں انجلا مارکلز اور ترکی میں طیب اردگان کی طویل حکومت اس کی مثال ہے۔ مگر کارکردگی کتنی ہی شاندار کیوں نہ ہو ہر چار یا پانچ سالہ مقررہ مدت کے بعد تازہ مینڈیٹ بہر صورت لینا پڑتا ہے۔

سیاسی میدان میں موجود ہر جماعت اقتدار کی خواہشمند ہوتی ہے۔ اسی لئے تو سراج لالہ جیسے قلیل ترین مینڈیٹ والے لیڈر کو بھی یہ کہنا پڑتا ہےکہ اگر عوام انہیں حکومت کا موقع دیں تو وہ عوامی بھلائی کے فلاں فلاں اقدامات کریں گے۔ اس طرح کے بیانات پر ہم اسی لئے نہیں ہنستے کہ یہ بیان دینے کا حق ہر اس جماعت کو حاصل ہے جو انتخابی سیاست پر یقین رکھتی ہے اور اس کے ذریعے اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے۔ مگر قابل غور نکتہ یہ ہے کہ اقتدار کے لئے سیاسی میدان میں موجود جماعتیں یہ تاثر کبھی بھی نہیں دیتیں کہ ہوس اقتدار میں مری جا رہی ہیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی کی حکومت کو ختم ہوئے دس سال ہوگئے۔ کیا کسی نے زرداری صاحب یا بلاول کو اقتدار کے لئےبے چین و بے قرار دیکھا؟

پیپلز پارٹی کو محدود مینڈیٹ ملا تو جمہوری نظام میں اپوزیشن والا رول اس جماعت نے خندہ پیشانی سے قبول کرلیا۔ نواز شریف کے تیسرے دور میں پیپلز پارٹی اپوزیشن میں ہونے کے باوجود پی ٹی آئی کی اسمبلی کے خلاف کی جانے والی سرگرمیوں میں موقع پرستی کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی حمایت میں نہیں گئی۔ بلکہ وہ اس اسمبلی کو بچانے کے لئے حکومت کے ساتھ کھڑی ہوگئی جس اسمبلی سے ان کے اقتدار کی کوئی امید ہی نہ تھی۔ یہی چلن 2008ء سے 2013ء تک چلنے والی اسمبلی میں نون لیگ کا بھی رہا تھا۔ یہ سیاست کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جب آپ الیکشن میں جاتے ہیں تو یہ طے ہوتا ہے کہ یا تو آپ کو اقتدار ملے گا یا اپوزیشن کے بینچ۔ سیاسی جماعتیں یہ دونوں ہی کردار خندہ پیشانی سے قبول کرنے کی روایت رکھتی ہیں۔ کیونکہ انتخابی سیاسی نظام میں جس طرح اقتدار ایک مستقل رول ہے اسی طرح اپوزیشن بھی ایک مستقل کردار ہے۔

یہ فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہوتا ہے کہ کسے اقتدار دینا ہے اور کسے اپوزیشن کا کا رول۔ سو بالغ نظر سیاسی جماعتیں عوام کے ان فیصلوں کو تسلیم کرتے ہوئے ملنے والا رول قبول کر لیتی ہیں۔ لیکن عمران خان کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اقتدار کے سوا کوئی رول قبول نہیں۔ اور اقتدار بھی انہیں اس تحفے کی طرح چاہئے جو توشہ خانے میں جمع نہ کرانا پڑے۔ وہ تحفہ جو کوئی فیض حمید اور باجوہ انہیں دے۔ مقبول ہونے کا زعم اپنی جگہ مگر کیا آج بھی یہ اقتدار جرنیلوں سے ہی نہیں مانگ رہے؟

اسٹیبلیشمنٹ حکومت کو چلتا کردے، اسٹیبلیشمنٹ جلد انتخابات کروا دے جیسے واویلے کیا بتاتے ہیں؟ اگر انہیں عوامی مقبولیت میسر ہے تو پھر ٹینشن میں کیوں ہیں؟ مقررہ مدت کے لحاظ سے اکتوبر میں انتخابات متوقع ہیں۔ اگر یہ مقبول ہیں تو بن جائے گی ان کی حکومت۔ اس کے لئے اتنے مرے کیوں جا رہے ہیں کہ جرنیلوں سے وہ کردار ادا کرنے کا مطالبہ کئے جا رہے ہیں جو آئین شکنی کے سوا کچھ نہیں؟

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ احمقوں کی ایک اچھی خاصی تعداد ان کے فین کلب کا حصہ ہے۔ مگر مجموعی طور پاکستان کے عوام سیاسی شعور کی اس پستی پر نہیں ہیں جو صرف یوتھیوں کا متعین مقام ہے۔ سو قوم کا دماغ نہیں خراب کہ اسے دوبارہ اقتدار دے گی جس نے ملک کو اس کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ آج اگر عوام کو دال آٹے کے حصول میں مشکلات کا سامنا ہے تویہ صرف عمران خان اور ان کے سرپرستوں کی وجہ سے ہے۔ شہباز حکومت سے عوام کو یہ شکایت نہیں کہ اس نے معیشت تباہ کردی ہے۔ بلکہ یہ گلہ ہے کہ یہ حکومت عمران خان کی تباہی کو سمیٹنے میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کر پا رہی۔ حالات جوں کے توں ہی چل رہے ہیں۔ بہتری کا کوئی سفر تاحال شروع نہیں ہوسکا۔ اور اس ضمن میں بھی عوامی سطح پر جو گفتگو ہو رہی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ نون لیگ عمران خان کے پیدا کردہ معاشی بحران سے نمٹ نہیں پا رہی۔ بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ شہباز نا اہل ثابت ہوئے ہیں، لہٰذا نواز شریف کو خود آنا چاہئے۔

گویا وہ شہباز کی جگہ عمران خان کی جانب نہیں بلکہ نواز شریف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ موجودہ حکومت کی نالائقی پر تو ہم بھی تنقید کرتے آرہے ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم عمران خان کی حکومت چاہتے ہیں؟ قطعاً نہیں، ہم نواز شریف کو ہی بیسٹ آپشن مانتے ہیں۔ عمران خان کو تو ہم جیل میں دیکھنے کی آرزو رکھتے ہیں کہ صادق و امین کا جعلی سرٹیفیکٹ لے کر توشہ خانہ لوٹتے رہے۔

ایسا نہیں کہ عمران خان کو یہ سب نہیں معلوم۔ وہ بھی جانتے ہیں کہ عوام نے نہ تو 2018ء میں انہیں اقتدار دیا تھا اور نہ ہی آئندہ ان سے ملنے کی امید ہے۔ سو ان کی ساری امیدیں اس بار بھی اسی گیٹ نمبر 4 سے ہیں جو 2018ء میں کام آیا تھا۔ اور یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کی طرف کم اور جی ایچ کیو کی جانب زیادہ دیکھ رہے ہیں۔ ساری محنت جی ایچ کیو کو رام کرنے کی چل رہی ہے۔ مگر اتنی عقل جی ایچ کیو میں بھی ہے کہ بجٹ سے سب سے زیادہ حصہ انہی کو ملتا ہے۔ اور یہ حصہ اگر خطرے میں ہے تو ذمہ دار صرف عمران خان ہیں۔ وہ ہارے ہوئے گھوڑے پر اب بھول کر بھی رقم نہ لگائیں۔

Related Posts