اردوصحافت کو دو سوسال مکمل ہونے کی مناسبت سے مہاراشٹر اسٹیٹ اردو ساہتیہ اکیڈمی اور پترکاروکاس فاونڈیشن کے اشتراک سے ممبئی کےخلافت ہاوس میں یک روزہ صحافتی ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا۔
افتتاحی اجلاس پترکاروکاس فاونڈیشن کے صدریوسف رانا نے فاونڈیشن کی۲؍سالہ کارکردگی کو مفصل طورپرپیش کرتے ہوئے بتایا کہ کس طرح فاونڈیشن نےصحافیوں کی فلاح و بہبودکےلئے کیا کیا کام کیے۔
یہ بھی پڑھیں:
بھارت میں مسلمانوں کے ایک اور اہم مذہبی مقام پر قبضے کی تیاریاں
جلسے کے صدر روزنامہ انقلاب کے مدیراعلی شاہد لطیف نے اپنے خطبے میں نےاردو اکیڈمی اور پترکار وکاس فاونڈیشن کی کارکردگیوں کی سراہنا کرتے ہوئے کہا کہ اردو صحافت اب وقت کی ضرورت بن گئی ہے لہٰذا اسے پرنٹ میڈیا تک محدود نہ رکھتے ہوئے ترقی یافتہ دور کے ساتھ ڈیجیٹلائز بھی کیا جانا چاہئے کیونکہ پرنٹ اخبارات کے قارئین کی تعداد کی بہ نسبت ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر پڑھنے والوں کی تعداد قدرے زیادہ نظر آتی ہے۔
ان سے قبل اردو اکیڈمی کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر شعیب ہاشمی نے بتایا کہ کس طرح اردو ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سےاردوزبان و ادب کے فروغ کے لئے مختلف اسکیمیں چلائی جارہی ہے۔ اردواکیڈمی کی تشکیل نہ ہونے نیز اسٹاف کی کمی کے باوجوداردو صحافیوں کی رہنمائی کے لئے ورکشاپ کابھی انعقاد کیا جاتا ہے اسی تناظر میں یہ پروگرام بھی منعقد کیا گیا ہے۔
افتتاحیت تقریب کی نظامت سینئر صحافی سعدیہ مرچنٹ نےبہت ہی خوبصورتی سے انجام دیے۔’’صحافت میں رپورٹنگ کی اہمیت ‘‘کے عنوان سے منعقدہ اولین سیشن میںٹائمز آف انڈیا کے صحافی وجیہ الدین نے کہا کہ صحافت میں نئی نسل کو قدم رکھنا بہت ضروری ہے۔رپورٹنگ کے بنیادی اصول اور اس کے طریقہ کار کے عنوان سے انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان نسل اخبارات کا مطالعہ کرکے اپنی معلومات میںاضافہ کر سکتے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں مظلموں کی آوازاٹھانے کے لئے صحافت سے اچھا کوئی شعبہ نہیں ہے۔ ’’اردوصحافت کا مستقبل ‘‘ کواپنی تقریر کا عنوان بناتے ہوئےڈاکٹرسلیم نے حاضرین کوبتایا کہ لوگوں کو اس بات کی فکر ہے کہ اردو صحافت کا کیاہوگا؟ اس ملک میں صحافت کا جنازہ اٹھادیاگیا ہے۔ ہم پر جبراس لئے ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کوآـانی سے جھکایا جاسکتاہے اور نہ خریدا جاسکتا ہے۔
اس سیشن کی نظامت سینئر صحافی قطب الدین شاہد نے بہ حسن وخوبی انجام دیئے۔دوسرا سیشن بہ عنوان’’صحافت میں ڈیکس کا کردار‘‘ کے عنوان تحت منعقدہ سیشن میںروزنامہ ہندستان اورنگ آباد کےمدیرنا یاب انصاری نے سوشل میڈیا کی افادیت کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ بے شک سوشل میڈیا عوام کے لئے باعث رحمت ثابت ہورہی ہیں مگر اس کے باوجودان میں کچھ ایسے ذرائع بھی ہیں جنہیں آج تک شک کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے یعنی اسے معتبر نہیں ماناجاتا ۔ جبکہ پرنٹ میڈیا کی یہ خوبی ہےکہ آج بھی اس کے وقار پر کوئی آنچ نہیں آئی ہے اوراسے معتبر ہی ماناجاتا ہے۔
ممبئی اردونیوزکےایڈیٹر شکیل رشید نے صحافت کے پیشےکوسنجیدگی سے پیش کرتے ہوئے کہا کہ اردو اخبار میں ایک اداریہ ہوتا ہے جبکہ دیگر زبانوں کے اخبارات میں دو یا تین اداریے ہوتےہیں۔
اداریہ اخبار کی جان ہوتے ہیں اسے خبر نہ بنایاجائے اورنہ ہی خبر کواداریہ بنایاجائے کیونکہ اداریے میں سماج کودر پیش مسائل پرمدیر کی اپنی ذاتی رائے ہوتی ہے۔جولوگ اپنےضمیر کی آواز پرلبیک کہیں گے ان کامستقبل روشن رہے گا۔جہاں تک میرا مطالعہ سے آج تک کسی بھی اردو کے صحافی کو نوبل پرائز کے لئے منتخب نہیں کیا گیا ہے۔ صحافت کے مستقبل کو روشن بناناچاہتے ہیں تو خطرات سے مقابلہ کرنا ہوگا۔آج بھی سب سے آزاد میڈیا اردو میڈیا ہی ہے۔
ورکشاپ میںسیاسی، سماجی، تعلیمی، مذہبی اورصحافتی شخصیات کے ساتھ ساتھ بڑی تعدادمیں صحافت کا کورس کرنے والے طالبات نےشرکت کیں۔ممبئی کےعلاوہ مہاراشٹر کےدیگر شہروں سے اردوکےصحافی اور شیدائی شریک ہوئے جبکہ مشہور شاعر ڈاکٹرقاسم امام،نظام الدین راعین،اقبال میمن آفیسر،روزنامہ اچھی خبر کے مدیر شمسی صاحب، فریدخان(اردو کارواں)،ممبئی اردو نیوز کےفرحان حنیف،انوراعظمی، ناگپاڑہ ٹائمز کےشکیل انصاری،بال بھارتی کے نوید الحق،روزنامہ ہندستان کے عبدالقیوم نعیمی، نمیرا، عبدالستار، حنا شیخ، شاہدہ دربار،ڈاکٹر اسماعیل قریشی، مزمل کور،عطا بھائی، مہدی بھائی، شکیل شیخ، شکیل انصاری وغیرہ قابل ذکر ہیں۔