جنرل باجوہ کی سیاست سے کنارہ کشی

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

پچھلے ایک سال کے دوران سیاسی و صحافتی حلقے ایک شدید کنفیوژن کا شکار رہے ہیں۔ اس کنفیوژن کا بنیادی سبب یہ رہا کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد فوج باقاعدہ اعلان کی صورت کہہ چکی تھی کہ وہ سیاست سے لاتعلق ہوچکی ہے۔

مگر کچھ چیزیں بدستور ایسی ہو رہی تھیں جن سے اشارہ ملتا تھا کہ فوج سیاست سے لاتعلق نہیں ہے۔ اب اگر اس وقت کی اسٹیبلیشمنٹ کو بطور اکائی دیکھا جائے تو کسی ایک اکائی کے ایک ہی مسئلے میں دو متضاد مؤقف نہیں ہوسکتے۔ یوں سوال یہ پیدا ہوگیا کہ کہیں یہ اکائی کوئی فریب تو نہیں دے رہی ہے؟ کہ کہہ تو یہی رہی ہے کہ وہ سیاست سے لاتعلق ہوچکی مگر پس پردہ اقدامات اب بھی سیاسی مداخلت کے ہی چل رہے ہیں۔ مثلا آپ یہی دیکھ لیجئے اس سال مئی کے اوائل میں یہ بات بالکل واضح ہوچکی تھی کہ اسٹیبلیشمنٹ پی ڈی ایم حکومت پر جلد انتخابات کے لئے دباؤ ڈال رہی ہے۔ تو سوال تو بنتا ہے کہ اگر اسٹیبلیشمنٹ سیاست سے لاتعلق ہوچکی تھی تو پھر وہ پی ڈی ایم پر جلد انتخابات کا دباؤ کیسے ڈال رہی تھی؟ یہ تو سیدھی سیدھی سیاسی مداخلت ہی تھی۔

چنانچہ پی ڈی ایم نے اس ابہام کو دور کرنے کے لئے یہ حکمت عملی اختیار کرلی کہ مسلسل یہ بات دہرانی شروع کردی کہ لاڈلہ اب بھی لاڈلہ ہے۔ اسے اب بھی اندر سے سپورٹ حاصل ہے۔ اگر پی ڈی ایم کے اس مؤقف کے ساتھ آپ عمران خان کے اس مؤقف کو بھی جوڑ لیں جو وہ اپنے مخصوص صحافیوں سے آف دی ریکارڈ کئی بار کہہ چکے کہ چار پانچ جنرلز ہیں، وہی مسئلہ کر رہے ہیں تو بات پوری طرح واضح ہوجائے گی۔

گویا اسٹیبلیشمنٹ ایک اکائی نہ رہی تھی بلکہ وہ دو دھڑوں میں بٹ چکی تھی اور صورتحال یہ تھی کہ کوئی ایک دھڑا مکمل کنٹرول کی حالت میں نہ تھا۔ چنانچہ یہ بات تو واضح تھی کہ فوج بطور ادارہ سیاست سے لاتعلق ہونے کا فیصلہ کرچکی ہے مگر کچھ عناصر ہیں جو اب بھی در پردہ سیاسی سرگرمیوں میں مشغول ہیں۔ سو اس کے نتیجے میں ایک عین منطقی سوال کھڑا ہوگیا کہ اگر کچھ لوگ فوج کے اجتماعی فیصلے سے انحراف کر رہے ہیں تو ان کے خلاف جنرل باجوہ کی جانب سے کار روائی کیوں نہیں ہورہی؟

اس کا جواب ڈی جی آئی ایس پی آر کی اس پریس کانفرنس میں ہے جو پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد ہوئی تھی۔ مگر یہ جواب کوئی سمجھ اس لئے نہ سکا کہ وہ الفاظ سے زیادہ باڈی لینگویج میں تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر سے سوال ہوا تھا کہ کیا جنرل باجوہ ایکسٹینشن لیں گے؟ اس کے جواب میں الفاظ تو یہ تھے کہ نہ وہ ایکسٹینشن مانگیں گے اور نہ ہی لیں گے۔ چاہے کچھ بھی ہوجائے۔ اس جملے میں “چاہے کچھ بھی ہوجائے” نہایت قابل غور ہے۔ اس طرح کا جملہ کوئی تب استعمال کرتا ہے جب کوئی اسےچیلنج کر رہا ہو۔ اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ کہ یہ الفاظ ادا کرتے وقت ڈی جی آئی ایس پی آر کا لہجہ تلخی لئے ہوئے تھا۔

سوال یہ ہے کہ یہ جملہ اور تلخی کیا بتا رہی تھی؟ کیا جنرل باجوہ کو کوئی زبردستی ایکسٹینشن دے رہا تھا ؟ ظاہر ہے نہیں۔ تو پھر اس جملے اور تلخی کا مطلب؟ یہ جملہ اور تلخی درحقیقت ان کے مؤقف کا اظہار تھا جو فوج کو سیاست سے دور کرنے کا مؤقف نہ صرف رکھتے تھے بلکہ 6 ماہ کی طویل مشاورت کے نتیجے میں اسے بطور پالیسی منظور بھی کروا چکے تھے۔ اور وہ جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے کسی صورت حق میں نہ تھے۔

اب اگر ہم چوہدری مونس الہی کے حالیہ بیان کو سامنے رکھیں تو پکچر بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کے بعد والی صورتحال میں فساد کی جڑ صرف جنرل فیض حمید نہ تھے بلکہ جنرل باجوہ بھی بدستور پی ٹی آئی کے ساتھ تھے۔ اور انہوں نے ہی پرویز الہی کو پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا کہا تھا۔ یعنی جنرل باجوہ ہی اس کمزور دھڑے کے سرخیل تھے جو فوج کے سیاسی کردار کا نہ صرف حامی تھا بلکہ 6 سال سے ہائبرڈ نظام بھی چلا رہا تھا۔ اس حقیقت کو 3 مزید باتوں سے بھی تقویت ملتی ہے۔

پہلی یہ کہ فوج نے سیاست سے لاتعلق ہونے کا فیصلہ فروری 2021ء میں کیا تھا مگر نہ تو اس کا اعلان ہوا اور نہ ہی کوئی ایسی سرگرمیاں ہوئیں جن سے لگتا کہ فوج سیاست سے نکل رہی ہے۔ الٹا یہ کہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی اپنے کٹھ پتلی وزیر اعظم سے ملاقاتیں بھی “حسب معمول” چل رہی تھیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ یہی وہ صورتحال تھی جو جنرل باجوہ کو بے دست و پا کرنے کا سبب بنی۔ اور اس کا آغاز یوں ہوا کہ ملٹری کمان نے جنرل باجوہ سے کہا کہ وہ جنرل فیض کو آئی ایس آئی سے ہٹائیں۔مگر ایک حیرت انگیز بات یہ ہوگئی کہ عمران خان نے جنرل فیض کو آئی ایس آئی سے فارغ کرنے سے انکار کردیا۔ اور اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز یہ کہ جنرل باجوہ نے اسے خاموشی سے قبول کرلیا۔

چنانچہ اکتوبر کے وسط میں جنرل باجوہ اور اس وقت کے چیف آف جنرل سٹاف جنرل اظہر عباس آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹرز کے دورے پر گئے۔ وہاں ہونے والی ملاقات کی ایک تصویر بھی جاری کی گئی۔ اگر آپ وہ تصویر دیکھیں تو جنرل اظہر عباس کے چہرے پر جارحانہ تاثرات ہیں، ان کے سامنے بیٹھے جنرل فیض حمید کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی ہیں جبکہ جنرل باجوہ منہ لٹکائے بیٹھے ہیں۔ آپ ایک لمحے کے لئے خود کو جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کی جگہ رکھ کر سوچئے کہ کیا آپ اپنی ایسی تصویر جاری ہونے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ یہ چیف آف جنرل سٹاف ہی ہوتا ہے جو پوری فوج کو چلا رہا ہوتا ہے۔

دوسری بات یہ کہ تاریخ میں پہلی بار ڈی جی آئی ایس آئی کو پریس کانفرنس کرنی پڑی۔ اور یہ اس لئے ہوا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک نازک صورتحال درپیش تھی۔ ڈی جی آئی ایس آئی کا پریس کانفرنس میں آنا درحقیقت اس بات کا اظہار تھا کہ انچارج کون ہے، اور فیصلے کس کے چلیں گے۔ اگر جنرل باجوہ نے فروری 2021ء میں فوج کو سیاست سے دور کرنے والے فیصلے کی فائل دبائی نہ ہوتی بلکہ اس فیصلے کی روشنی میں اقدامات کئے ہوتے تو انہیں بے دست و پا نہیں ہونا پڑتا۔

تیسری بات یہ کہ جب ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپریل 2021 والی پریس کانفرنس میں واضح بتا دیا کہ فوج سیاست سے لاتعلق ہوچکی ہے۔ مگر اس کے بعد بھی سوشل میڈیا پر سرگرم بعض ایسے اکاؤنٹس بدستور جنرل فیض والی لائن پر چل رہے تھے جن کے بارے میں کوئی شک ہی نہیں کہ یہ اکاؤنٹس ففتھ جنریش بریگیڈ کے ہیں۔گویا یہ اکاؤنٹس بھی فوج کے فیصلے کے ساتھ نہیں بلکہ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کے ذاتی ایجنڈوں کے ساتھ کھڑے رہے۔

اب آخر میں تین بنیادی سوال رہ جاتے ہیں۔ پہلا یہ کہ جب جنرل باجوہ اور موجودہ فوجی قیادت کی راہیں پچھلے ایک سال کے دوران جدا ہوچکی تھیں تو پھر چوہدری مونس الہی جنرل باجوہ کے وکیل صفائی بن کر کیوں سامنے آئے ہیں؟ اس سے تو نئی قیادت ناراض ہوگی۔ یہ سوال صرف ان اذہان میں پیدا ہوسکتا ہے جنہیں لگتا ہے کہ مونس الہی نے جنرل باجوہ کی صفائی پیش کی ہے۔ مونس الہی صفائی پیش نہیں کر رہے بلکہ درحقیقت وہ یہ واضح کر رہے ہیں کہ ہمارا کوئی قصور نہیں، خود جنرل باجوہ فوج کے فیصلے کے خلاف چل رہے تھے اور ہم انہی کے چکر میں آگئے تھے۔

ذرا غور کیجئے یہ مونس الہی ہی تو ہیں جنہوں نے جنرل باجوہ کے دوغلے پن کو سب کے سامنے لا کر رکھ دیا ہے۔ اور یہیں سے یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ 50 برس سے اسٹیبلیشمنٹ کا ساتھ دینے والا چوہدری خاندان دو دھڑوں میں کیوں بٹا؟ ظاہر ہے جب اسٹیبلیشمنٹ بٹ گئی تو یہ بھی بٹ گئے۔ چوہدری شجاعت فوج کے فیصلے کے ساتھ کھڑے رہے جبکہ پرویز الہی فوج کے اس وقت کے سربراہ کے ساتھ چل دئے۔

دوسرا سوال یہ کہ اگر جنرل باجوہ عمران خان کو سپورٹ کر رہے تھے تو پھر عمران خان ان کے خلاف نازیبا زبان کیوں استعمال کر رہے تھے؟ سو عرض کردیں کہ خان کا غصہ اسی بات پر تھا کہ جب دل سے ہمارے ساتھ ہیں تو کھل کر اقدامات کیوں نہیں کرتے؟ یہ انہیں بھڑکانے کی کوشش تھی مگر ایک ایسا شخص بھڑک کر کر بھی کیا کرسکتا ہے جس کے ہاتھ پیر پہلے ہی باندھے جا چکے ہوں؟

تیسرا اور آخری سوال یہ کہ کیا فوج کا سربراہ بے دست و پا کیا جا سکتا ہے؟ عام حالات میں ایسا ممکن نہیں۔ مگر جنرل باجوہ کے معاملے میں یہ ہوا کہ جب ملٹری کمان نے اس بات پر زور دینا شروع کیا کہ سیاست میں مداخلت اور بالخصوص عمران حکومت کی نالائقی کے نتیجے میں فوج بدنام ہو رہی ہے لہٰذا اس پالیسی کو ریویو کیا جائے۔ یوں جب 6 ماہ اس پر بحث مباحثہ ہوا اور ہر فریق نے اپنا مؤقف اور دلائل بھی کھل کر پیش کردیئے تو اس کے بعد فیصلہ آرمی چیف نے کرنا تھا۔

جنرل باجوہ نے جب یہ دیکھا کہ غالب اکثریت تو سیاسی مداخلت کے خلاف ہے تو فیصلہ وہی کیا جو غالب اکثریت کا مؤقف تھا۔ فوج کا یہ اصول ہے کہ فیصلہ کرتا آرمی چیف ہے لیکن اس کی حیثیت صرف آرمی چیف کے فیصلے کی نہیں ہوتی۔ ہر فیصلہ پاکستان آرمی کا فیصلہ قرار پاتا ہے۔ سو یہ فیصلہ بھی پاکستان آرمی کی پراپرٹی بن گیا تھا۔ اب اس فیصلے کے خلاف جو بھی جاتا اسے نتائج تو بھگتنے تھے۔

کوئی کور کمانڈر ایسا کرتا تو آرمی چیف اسے جبری ریٹائرڈ کر دیتا مگر یہاں تو خود جنرل باجوہ ہی پس پردہ اس فیصلے کے خلاف چل رہے تھے۔ سو ان کا بے دست و پا کیا جانا کوئی مشکل نہ تھا۔ وہ اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہوچکے تھے۔ اور فوج کا ڈسپلن یہ ہے کہ ادارہ سب کچھ ہے، فرد کچھ نہیں۔ اگر آپ نے سابق صدر آصف علی زرداری کا عاصمہ شیرازی کو دیا گیا حالیہ انٹرویو سنا ہو تو اس میں وہ ایک بڑا اشارہ دے گئے ہیں۔ زرداری صاحب نے کہا، اس (جنرل باجوہ) کی کھال شیر کی تھی، وہ چاہے بچہ دے یا انڈہ۔ عاصمہ شیرازی کہتی ہیں، اچھا تو آپ انہیں شیر مان رہے ہیں؟ زرداری صاحب مسکرا کر کہتے ہیں، میں نے شیر کی کھال کہا ہے۔ گویا زرداری صاحب تصدیق کر رہے ہیں کہ جنرل باجوہ کے پاس جرنیلی کا صرف یونیفارم ہی رہ گیا تھا !