گزشتہ دو دہائیوں کے دوران پاکستان میں غربت میں خاطر خواہ کمی ریکارڈ کی گئی ہے، لیکن اس اچھی پیشرفت کے باوجود انسانی ترقی میں پاکستان کا درجہ بدستور پیچھے ہے، جبکہ اسی عرصے کے دوران ملک کی معاشی ترقی کی رفتار غیر مستحکم اور سست رہی ہے۔
معاشی مواقع میں کسی قدر وسعت اور ملک سے باہر جانے والی ورکنگ فورس اور اس سے منسلک ترسیلات زر میں اضافے جیسے عوامل نے 2001 تا 2018 کے درمیان 47 ملین سے زیادہ پاکستانیوں کو غربت سے بچنے کا موقع دیا۔ اس وقت ملک پر اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے، جبکہ عمران خان کی قیادت میں پی ٹی آئی فوری انتخابات کرانے پر اصرار کر رہی ہے، مگر حکومت ہے کہ بقیہ دستوری مدت پوری کرنے پر بضد ہے۔
اس کھینچا تانی میں عمران خان نے نئے الیکشن کے اپنے مطالبے کو بزور منوانے کیلئے اسلام آباد تک مارچ کا اعلان کیا ہے۔ فوج پر ہمیشہ سیاست میں مداخلت کا الزام لگتا رہا ہے، تاہم اس بار فوج بار بار کہتی پائی جا رہی ہے کہ وہ سیاست سے دور ہے۔ فوج کے اسی موقف کو آگے بڑھاتے ہوئے گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی نے مشترکہ طور پر پریس کانفرنس کر ڈالی، جس میں دونوں افسران نے صحافی ارشد شریف کی موت اور کچھ متنازع سیاسی معاملات پر بھی دو ٹوک رائے پیش کی، جس پر مزید بات کرنا متنازع امورکو چھیڑنا ہے، چنانچہ اس معاملے کو یہیں روک کر اپنے موضوع پر آگے بڑھتے ہیں۔
ملک کے حوالے سے معاشی اشاریوں میں غربت میں تیزی سے کمی کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ انسانی وسائل کے نتائج ناقص اور جمود کا شکار رہے ہیں، جو خاصی فکر مندی کی بات ہے اور اس پر خصوصی کام اور توجہ دی جانی چاہیے۔
پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرنے والی سرمایہ کاری اور برآمدات میں نسبتاً محدود حصے کے باعث پاکستان نے اکثر معاشی بحرانوں کا سامنا کیا ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ دو ہزار سے لیکر دو ہزار اٹھارا تک فی کس جی ڈی پی مسلسل کم رہی ہے، جو اوسطاً صرف 2.1 فیصد سالانہ ہے، ظاہر ہے کہ یہ بہت کم شرح ہے اور اس شرح سے معیشت کے استحکام کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کے علاوہ کوویڈ 19 کے وبائی مرض نے بھی انسانی ترقی کے نتائج اور معاشی نمو پر سنگین اثرات مرتب کیے اور پوری دنیا کی طرح پاکستان کی پہلے سے کمزور چلی آ رہی معیشت کی کمر اس نے مزید جھکا دی ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ سماجی بے چینی کے سنگین معاشی نتائج ہوتے ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کا معیشت پر منفی اثر یقینی امر ہے۔ ایک کمزور معیشت زیادہ عرصے سیاسی عدم استحکام کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتی، چنانچہ اس امر کو سمجھنا چاہیے کہ سیاسی مظاہروں اور احتجاجوں کا جی ڈی پی پر منفی اثر پڑتا ہے۔ ایسے میں خود سوچئے کہ جب متواتر سیاسی مظاہرے جاری ہوں تو اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ معیشت کو کس قدر نقصان ہوسکتا ہے۔ ایک سنگین سیاسی واقعہ روزگار اور معاشی ترقی پر طویل مدتی اثر ڈالنے کی صلاحیت رکھتا ہے جو چھ سہ ماہیوں تک دراز ہوسکتا ہے، چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ لانگ مارچ سے ہونے والا معاشی نقصان دیرپا ظاہر ہوتا ہے۔
معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے حکومت نے مجموعی طلب کو محدود کرنے کے لیے متعدد پالیسیاں متعارف کرائیں، جس میں توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا اقدام بھی شامل ہے۔ حکومت کی جانب سے معاشی استحکام کے اقدامات کے نتیجے میں ترقی کی رفتار سست ہونے اور شرح مبادلہ کے مستحکم ہونے کی توقع تھی، اس کے علاوہ اس بات کی بھی توقع تھی کہ ملک کے مجموعی قرضوں میں بھی بتدریج کمی آئے گی، مگر اس سمت تا حال کوئی مثبت پیشرفت دکھائی نہیں دیتی، جس کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام بھی ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق اوسطاً بد امنی کے نسبتاً کسی ایک بڑے واقعے کے بعد چھ سہ ماہیوں تک جی ڈی پی میں ایک فیصد کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ موجودہ لانگ مارچ بھی ہماری جی ڈی پی کی شرح کو بڑا دھچکا لگا سکتا ہے۔
اس بار مون سون کی شدید بارشوں کی وجہ سے تباہ کن سیلاب آیا، جس سے ملک کا تقریباً 15 فیصد حصہ پانی میں ڈوب گیا اور 33 ملین سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے۔ سیلابوں اور بارشوں سے 20 لاکھ سے زیادہ گھر تباہ یا متاثر ہوئے، جبکہ1,700 ہلاکتوں کے ساتھ انسانی جانوں کا بڑا نقصان اس کے علاوہ ہے۔ بارشوں اور سیلابوں سے 13,000 کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں بھی متاثر ہوئیں۔ سیلابوں نے زرعی شعبے میں بھی بڑی تباہی پھیلائی۔ تقریبا 9.4 ملین ایکڑ سے زیادہ زیر کاشت اراضی تباہ ہو گئی اور کپاس، کھجور، گندم اور چاول کی فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا، اس تمام کا اثر بھی یقینا قومی معیشت پر بہت تباہ کن انداز میں پڑا ہے، چنانچہ ابتدائی تخمینے بتاتے ہیں کہ سیلاب کی تباہ کاریوں سے براہ راست غربت میں 2.5 سے 4.0 فیصد اضافہ ہو گا اور مآلِ کار 5.8 سے 9.0 ملین کے درمیان لوگ غربت کی وادی پر خار میں داخل ہوں گے۔
ان حالات میں ملک کو سیاسی استحکام کی اشد ضرورت ہے، خدا نخواستہ لانگ مارچ اور ایجی ٹیشن کا سلسلہ دراز ہوا تو اس بات کے یقینی امکانات ہیں کہ معیشت مزید ابتری کی طرف چلی جائے!