ملکی تاریخ کے بد ترین سیلاب کے باعث پاکستان میں 1 ہزار 600 سے زائد افراد جاں بحق اور 12ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ 13 ہزار کلومیٹر پر محیط سڑکوں کو نقصان پہنچا، 400 کے لگ بھگ پل تباہ ہوئے اور 3 کروڑ 50 لاکھ کے قریب افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔
قومی ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ سیلاب کے باعث جاں بحق افراد میں 570 سے زائد بچے بھی شامل ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسیف کا کہنا ہے کہ شدید بارشوں، لینڈ سلائیڈنگ اور سیلاب سے پاکستان میں متاثر ہونے والے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جن میں سے 1 کروڑ 60 لاکھ کمسن بچے ہیں۔
دوسری جانب ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیلاب اور بارشوں سے بے انصافی کا احساس بڑھ گیا ہے۔ پاکستان کا عالمی درجۂ حرارت بڑھانے والی گیسز کے اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ہے تاہم موسمیاتی تبدیلی کے خطرات کا شکار ممالک میں پاکستان صفِ اوّل میں ہے۔
ماضی میں بھی ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث عالمی سطح پر دنیا کا تیسرا خطرناک ترین ملک ہے تاہم حکومت نے یہ بات ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دی جس کا خمیازہ آج ساڑھے 3 کروڑ افراد کو بھگتنا پڑر ہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلی کے باعث آنے والے سیلاب کے بعد معاشی مسائل، مہنگائی اور افراطِ زر پاکستان کے بڑے مسائل ہیں جن سے غریب عوام کی کمر ٹوٹ کر رہ گئی ہے۔ اگر صورتحال یہی رہی تو پاکستان 2.6 ارب ڈالر کی کپاس اور 90 کروڑ ڈالر کی گندم اضافی طور پر درآمد کرنے پر مجبور ہوسکتا ہے۔
ملک بھر میں کپاس سمیت دیگر فصلوں کو بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ ممکن ہے کہ پاکستان کو 1 ارب ڈالر کی ٹیکسٹائل برآمدات سے بھی محروم ہونا پڑ جائے جس سے ملک کے مسائل میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ سیلاب کا پانی غائب ہونے کیلئے 2 سے 3 ماہ لگ سکتے ہیں جو گندم اور خوردنی تیل کی فصلوں کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ماہرین پہلے ہی خبردار کرچکے ہیں کہ اگر گندم کی کاشت میں تاخیر کی گئی تو پاکستان میں خوراک کا بحران پیدا ہوسکتا ہے جبکہ بہت سے کسانوں نے گندم کی کاشت کی امید ہی چھوڑ دی ہے جو خوردنی تیل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔اگر ملک کو 3 کروڑ ٹن گندم کی طلب کا 15 فیصد درآمد کرنا پڑے تو رواں مالی سال کے دوران ہمارا درآمدی بل 1.7 ارب ڈالر تک جانے کا خدشہ ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومتِ وقت ملکی ضروریات کا احساس کرتے ہوئے سیلاب زدگان کی امداد کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کے مسائل پر بھی توجہ دے تاکہ ملکی صنعتوں کا پہیہ جام ہونے سے بچایا جاسکے اور ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری پر قابو پانے کی راہ بھی ہموار کی جاسکے۔