زیادہ پرانی نہیں، 2013ء کی بات ہے۔ نواز شریف برسر اقتدار آئے تو ملک کسی حالیہ نوعیت کے بڑے معاشی بحران سے تو دو چار نہ تھا، مگر تین بڑے بحرانوں نے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔
سب سے بڑا بحران امن کا بحران تھا۔ پاکستان کا کوئی بھی قابل ذکر شہر دہشت گردوں کی رسائی سے محفوظ نہ تھا۔ وہ جب اور جہاں چاہتے خود کش حملہ کردیتے۔ اور ہر خود کش حملہ درجنوں قیمتی انسانی جانیں لے جاتا۔ لوگ خریداری کے لئے بازار جاتے تو وہاں حملہ ہوجاتا۔ بچے پڑھنے کے لئے سکول جاتے تو وہاں حملہ ہوجاتا۔ فیملیز چھٹی والے روز تفریح کے لئے پارکوں کا رخ کرتیں تو وہاں خود کش حملہ ہوجاتا۔ نمازی جمعہ یا تراویح پڑھنے بڑی تعداد میں مسجد میں اکٹھے ہوتے تو وہاں خود کش حملہ ہوجاتا۔ یہ سارے وہ حملے تھے جو براہ راست پاکستان کے عام شہریوں پر ہورہے تھے۔ یعنی ان حملوں کا ہدف کوئی شخصیت یا خاص فیملی نہ ہوتی۔
مگر اسی کے ساتھ ساتھ دہشت گردوں کی جانب سے تین مزید سرگرمیاں بھی جاری تھیں۔ جن میں سب سے اہم یہ کہ وہ دفاعی تنصیبات کو بھی مسلسل نشانہ بنا رہے تھے۔ حساس اداروں کے دفاتر، جی ایچ کیو، اور مہران بیس حملے تو خاص طور پر بہت اہم ہیں۔ تیسری سرگرمی یہ کہ ٹارگٹ کلنگ بھی زوروں پر تھی۔ فوج اور پولیس کے وہ افسران خاص طور پر نشانہ تھے جو دہشت گردی کے خلاف لڑ رہے تھے۔ چوتھی سرگرمی اغوا برائے تاوان اور بھتے کی تھی۔ یہ ساری سرگرمیاں ہم نے دہشت گردوں کے اس ایک گروہ کی ذکر کی ہیں جن کا ہیڈکوارٹر وزیرستان تھا۔ مگر دہشت گردی کی کل کائنات یہی نہ تھی۔
ایک گروہ وہ بھی تو تھا جوفرقہ وارانہ دہشت گردی میں تین عشروں سے ملوث تھا۔ اور تجربے کے لحاظ سے یہ وزیرستان والے دہشت گردوں سے آگے تھا۔ مگر اس کے اہداف مخصوص تھے۔ اس کی پوری حکمت عملی ایک خاص ٹارگٹ کے گرد گھومتی تھی۔ دہشت گردوں کا تیسرا گروہ اپنے الطاف بھائی کے ان وفاداروں کا تھا جن کا ماٹو یہ تھا کہ جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے۔ یہ گروہ صرف کراچی کے جغرافیے تک محدود تھا مگر قابل غور بات یہ ہے کہ دو کروڑ لوگ ان کے ہاتھوں غیر محفوظ تھے۔ بھتہ اور ٹارگٹ کلنگ ان کی ٹریڈ مارک وارداتیں تھیں۔
دہشت گردوں کے اس گروہ نے کراچی کے ساتھ جو سب سے بڑا ظلم کیا ہے وہ یہ کہ ایک دورانیے میں اس نے صرف ان شخصیات کو نشانہ بنایا جو کراچی کا دماغ تھے۔ علم ، ادب، شعر اور فنون کے میدانوں میں کارہائے نمایاں انجام دینے والی شخصیات۔ ان میں سے کسی ایک کا بھی سیاست سے کوئی تعلق نہ تھا۔ مگر ظاہر ہے ان کا وجود وہ شعور تھا جس سے اس شہر کے ڈان کو خطرہ تھا۔ انہیں نہ تو مخالفت کرنے کے جرم میں مارا گیا، نہ پیسے کے لئے مارا گیا، اور نہ ہی کسی حکم عدولی کی سزا دی گئی۔ انہیں بس اس جرم میں قتل کردیا گیا کہ ان کے پاس اعلیٰ درجے کا شعور تھا اور زندگی میں کبھی ایک بار بھی ان کے منہ سے یہ جملہ نہ سنا گیا کہ کراچی الطاف بھائی کا ہے اور الطاف بھائی ہمارے ہیں۔ اگر آپ الطاف بھائی کی حمایت میں ایک جملہ بھی نہیں کہہ رہے تو آپ الطاف بھائی کے تو نہیں ہوسکتے۔ ایسی صورت میں ایک بڑے قد کاٹھ کے ساتھ آپ کو جینے کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے؟
دہشت گردی کی یہ کائنات ابھی ناتمام ہے۔ چوتھا حلقہ ان دہشت گردوں کا تھا جو لیاری گینگ وار کے نام سے جانے جاتے تھے۔ نام سے ہی ظاہر ہے کہ یہ کراچی کے اس حصے پر کنٹرول رکھتے تھے جہاں سے ایک روز شہر کراچی نے جنم لیا تھا۔ ساحل سے پیدل مسافت پر واقع لیاری کا علاقہ۔ دہشت گردی میں حیوانیت کا عنصر تو الطاف بھائی اپنی ڈرل مشین سے سالوں قبل ہی داخل کرچکے تھے۔ لیاری گینگ وار اس حیوانیت کو نئی پستیوں تک لے گیا۔ وہ پستیاں جن کے ذکر کا حوصلہ یہ قلم بھی نہیں رکھتا۔ بر اعظم امریکہ کئی مافیاؤں کا گڑھ رہا ہے۔ ان میں سے بعض نے سختی سے یہ اصول لاگو کر رکھا تھا کہ اگر کسی کو مارنا پڑے تو گولی مار کر قتل کردیا جائے۔ اس کی لاش کی بے حرمتی کسی صورت نہ کی جائے۔ مگر پاکستان کے تمام دہشت گرد گروہوں کی سرگرمی میں آپ کو حیوانیت کا عنصر ضرور نظر آئے گا۔ کراچی کے دونوں دہشت گرد گروہ اس معاملے میں ٹاپ پر تھے۔
نواز شریف کے تیسرے دور حکومت کے آغاز پر یہ پاکستان کو لاحق صرف ایک بحران تھا۔ اب آجایئے دوسرے بحران کی جانب۔ یہ بحران توانائی کا بحران تھا۔ اسلام آباد میں بیٹھے کسی دیسی سقراط نے گزرے وقتوں میں یہ تصور پیش کیا تھا کہ پاکستان میں گیس بہت سستی ہے، اگر اسے سی این جی میں کنورٹ کرکے گاڑیوں میں استعمال کیا جائے تو پاکستان کو پیٹرول کم امپورٹ کرنا پڑے گا جس سے زرمبادلہ کی بچت ہوگی، جبکہ شہریوں کو بھی بہت ارزاں متبادل ایندھن دستیاب ہوجائے گا جس سے ان کی زندگی میں خوش حالی آجائے گی۔ یوں ملک میں سی این جی اسٹیشنز کا جال بچھ گیا۔ مگر دیسی سقراط کے بعد دیسی ارسطو کی بھی آمد ہوئی۔ اس نے یہ تصور دیا کہ جب گیس گاڑیوں کے ایندھن کے طور پر استعمال ہو رہی ہے تو پھر اتنی سستی کیوں ہے؟
یوں دیسی ارسطو کی بھی سن لی گئی جس سے پیٹرول اور سی این جی کی قیمتوں میں بہت کم فرق رہ گیا۔ مگر دیسی سقراط و ارسطو کے تصورات نے یہ بحران کھڑا کردیا کہ اپنی زمین میں پڑی جو گیس کسی زمانے میں دیسی سقراط کو بہت زیادہ لگی تھی وہ صرف پندرہ سال میں ختم ہونے کے قریب آگئی۔ یوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار گھروں میں کھانا پکانے کے لئے بھی گیس ندارد۔ بچے کھچے ذخیرے کے استعمال کے لئے یہ حکمت عملی اختیار کرلی گئی کہ ہفتے میں تین دن سی این جی کا ناغہ کیا جائے اور جاڑے میں گھروں کو صرف کھانا پکانے کے وقت گیس مہیا کی جائے تاکہ گیزر اور ہیٹر گیس خرچ نہ کرسکیں۔ یوں سی این جی اسٹیشنز کے سامنے تین تین کلومیٹر طویل قطاریں لگنی شروع ہوگئیں۔
نواز شریف کو ورثے میں ملا تیسرا بڑا بحران بجلی کا بحران تھا۔ دنیا بھر میں ہوتا یہ ہے کہ آبادی بڑھنے کی رفتار کے مطابق آنے والے سالوں کے لئے اپنی مستقل ضروریات کا تخمینہ پیشگی لگایا جاتا ہے۔ سو وہ جانتے ہیں کہ کون کونسی ضرورت کب کب موجودہ مقدار کے حساب سے ناکافی ہوتی چلی جائے گی۔ یوں وہ سال آنے تک اس ضرورت کی کمی کو پیشگی پورا کر لیا جاتا ہے تاکہ بحران پیدا نہ ہو۔ مثلاً حسب ضرورت بجلی کے کارخانوں کی تعداد میں اضافہ یا پہلے سے موجود کارخانوں کی پیداوار بڑھانا وغیرہ۔ مگر پاکستان میں نو سال براجمان رہنے والے مشرف کے پاس ان کاموں کے لئے وقت کہاں تھا؟ اسے تو استاد حامد علی خان سے کلاسیکل موسیقی کا چیلنج درپیش تھا اور اسے ڈانس میں بھی شیما کرمانی کو پیچھے چھوڑنا تھا۔ سو 2013ء میں ملک کو اٹھارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ کا سامنا تھا۔
نواز شریف نے پاکستان کو ان تینوں بحرانوں سے صرف ساڑھے تین سال میں نکال کر دکھا دیا۔ اس باب میں جو آدمی سب سے اہم تھا وہ اس دور کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے۔ اگر آپ غور کریں تو دہشت گردی، سی این جی اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ تینوں میں سے ایک بھی بحران موجود ہو تو اس کا لازمی اثر معیشت پر پڑے گا۔ اسحاق ڈار یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ ملک کو معاشی ترقی دینا ان تینوں بحرانوں کے ہوتے ممکن نہیں۔ یوں وہ اس لحاظ سے نواز دور کے سب سے طاقتور، سب سے متحرک اور سب سے مؤثر وزیر تھے کہ ان تینوں بحرانوں سے نجات دلانا انہی کی اولین ترجیح تھا ورنہ معاشی ترقی کا خواب خواب ہی رہ جاتا۔
سو تنہا نواز شریف کو ہی نہیں بلکہ اسحاق ڈار کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ یاد کیجئے جنرل باجوہ کا فتنہ انگیز جملہ کہ ملکی معیشت اگر بری نہیں تو اچھی بھی نہیں ہے۔ جب توپ خانے والے ماہر معیشت ہوجائیں تو پھر معیشت کا وہی حال ہوگا جو میڈیکل ڈاکٹر سے گھر تعمیر کروانے والے کے گھر کا ہوگا۔ گھر میں دیواریں کم، دروازے، کھڑکیاں اور روشندان زیادہ ہوں گے۔ کیونکہ طب یہ کہتی ہے کہ روشنی اور تازہ ہوا صحت کی ضامن ہے۔ مگر جب سٹرکچر کا سارا بوجھ دروازوں، کھڑکیوں اور روشن دانوں نے اٹھا رکھا ہوگا تو ایک روز اس گھر میں روشنی اور تازہ ہوا پانے کے لئے کوئی بھی زندہ نہ بچے گا۔ سو جنرل باجوہ کی معاشی مہارت انہیں آج ہر گھر سے بددعاؤں کا سیلاب مہیا کر رہی ہے۔ اس صورحال سے ملک کو نکالنے کے لئے مفتاح اسماعیل نامی مسخرے کو لایا گیا تو اس نے آسان حل یہ نکال لیا کہ سلطانہ ڈاکو ڈاکٹرائن استعمال کی جائے۔ سلطانہ ڈاکو امیر سے لوٹ کر غریب کو دیتا تھا۔ مفتاح اسماعیل پاکستانی شہری سے لوٹ کر آئی ایم ایف کو دیتا ہے۔ یوں مفتاح کی پالیسی سادہ لفظوں میں یہ ہے کہ ملک کے 22 کروڑ شہریوں کے گھروں پر ڈکیتی کرادو۔ مفتاح کی منحوس پالیسیاں ڈکیتی کی واردات کے سوا کچھ نہیں۔
ان حالات میں دو افراد سب سے زیادہ پریشان رہے۔ وہ نواز شریف اور اسحاق ڈار جو اپنے تیسرے دور حکومت میں ثابت کرچکے ہیں کہ عوام پر بوجھ ڈالے بغیر ملک کو بحران سے کیسے نکالا جاتا ہے۔ اسحاق ڈار بار بار کہہ رہے ہیں کہ سارا بوجھ عوام پر منتقل کرکے ظلم کیا جا رہا ہے۔ یہ مسئلے کا حل نہیں بلکہ نئے مسائل پیدا کرنے والی پالیسی ہے۔ خدا جزائے خیر دے عمران خان کو کہ فوج اور اس کے سربراہ کو اس درجے بدترین تنقید کا نشانہ بنا ڈالا کہ جی ایچ کیو کو نواز شریف اور اسحاق ڈار کی نافرمانیاں بہت ہی معمولی نظر آنا شروع ہوگئیں۔ شنید ہے کہ اسحاق ڈار فوری واپس آ رہے ہیں اور آتے ہی وزارت خزانہ کا چارج لینے والے ہیں۔ کسی کو عمران خان کا وہ بیان یاد ہے جو اقتدار کے شاید پہلے ماہ ہی دیا تھا کہ اسحاق ڈار نے ڈالر کی قیمت مصنوعی طور پر کم رکھی تھی؟ اور سارے یوتھیے اس پر واہ واہ کرتے پائے گئے حالانکہ یہ اسی پالیسی کا نتیجہ تھا کہ مہنگائی کنٹرول تھی اور عام آدمی سکون سے تھا۔ واپس آتے اسحاق ڈار یہ اعلان پیشگی کر چکے کہ سب سے پہلے ڈالر کو لگام دوں گا۔ گویا جو چیز چار سال قبل مرض بتائی گئی تھی آج چار سال بعد اسی کو علاج تسلیم کر لیا گیا۔ چونکہ یہ اس لئے ممکن ہوا ہے کہ عمران خان نے پانچ ماہ کی انتھک تقاریر میں مسلسل جنرل باجوہ کو جانور، میر جعفر، غدار اور گیدڑ تک کہہ ڈالا ہے جس سے نواز شریف اور اسحاق ڈار اب جی ایچ کیو کو صرف نواز شریف اور اسحاق ڈار نہیں بلکہ الحاج میاں محمد نواز شریف حفظہ اللہ اور الحاج اسحاق ڈار بہادر دام اقبالہ دکھنا شروع ہوگئے ہیں۔ سو ہم سب کو یک زبان ہوکر کہنا چاہئے کہ شکریہ عمران خان۔