آرمی چیف کا تقرر اور اخیر المؤمنین

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

وہ صاحب جن کی حکومت اس سال اپریل میں ختم ہوئی، تقریباً فوراً ہی سڑکوں پر آگئے تھے۔ کبھی ایک شہر تو کبھی دوسرے شہر جلسہ جلسہ کھیلنے لگے۔ اپنی طاقت کا اتنا زعم کہ اعلان داغ دیا اگلے ماہ یعنی مئی کے مہینے میں پی ڈی ایم حکومت کو چلتا کردیا جائے گا۔ اتنی جلدی تو کراچی میں کرائے دار سے مکان خالی نہیں کرایا جاسکتا مگر تکبر کا کیا علاج؟ نتیجہ یہ کہ 25 مئی کو سپریم کورٹ کی مدد کے بغیر خیرآباد پل عبور نہ کر پا رہے تھے۔ سپریم کورٹ کی مدد سے گرانے آئے تھے حکومت، اور گرا کر گئے چند درخت۔ یہ صاحب ہمارے ملک کے وہ اکلوتے اخیر المؤمنین ہیں جن کا دعوی ہے کہ وہ درخت لگانے والے لیڈر ہیں۔ مگر ان کے ریوڑ کے جلائے درخت ساری دنیا نے دیکھے۔

اگر کسی کو یاد ہو تو درخت گرا کر اخیرالمؤمنین اس دعوے کے ساتھ واپس پشاور نکل لئے تھے کہ پانچ دن بعد پھر آؤں گا۔ ہم ہنس دیے کہ جو پہلی بار آکر بھی صرف درخت گرا سکا، وہ پانچ دن بعد کیا گرا لے گا؟ بجٹ کی آمد تھی سو بہانہ آسانی سے مل گیا۔ نیا اعلان یہ داغ دیا گیا کہ بجٹ تک شہباز حکومت کو عام معافی ہے، تاکہ بجٹ منظور ہوجائے، مگر “جولائی میں نہیں چھوڑوں گا!” وقت کہاں رکتا ہے؟ سو مئی کی طرح ایک روز جولائی بھی آپہنچا۔ صرف آ ہی نہ پہنچا بلکہ اخیرالمؤمنین کے بلند بانگ دعوؤں کی طرح بے ثمر گزر بھی گیا۔ یوں پہلی بار یہ ہوا کہ اگست کے لئے کوئی تاریخ ہی نہ دی گئی۔ بس حکمت عملی میں یہ تبدیلی کرلی گئی کہ لمبی کے بجائے بہت لمبی چھوڑنی شروع کردی گئی۔ اتنی لمبی کہ شہباز گل بھی تان ملانے کے چکر میں رندے تلے آگئے۔ کسی چھ سالہ معصوم کی طرح رویا وہ ٹارزن، مگر ذہنی صلاحیتیں اسلام آباد پولیس نے ایسی بے نقاب کیں کہ ٹارزن ہونق بنے جج کے سامنے بقدم خود پائے گئے۔ حالانکہ پچھلی پیشی پر وھیل چیئر پر تھے اور ماسک کے فراق میں دھاڑیں مارتے پائے گئے تھے۔

اس موقع پر بھی اخیر المؤمنین نے بڑی اچھل کود کی، مگر اس اچھل کود میں اپنا ایک پیر توہین عدالت اور دوسرا دہشت گردی ایکٹ کی دفعات میں پھنسا بیٹھے۔ پر فواد چوہدری سے نئی تاریخ بھی دلوادی۔ فرمایا گیا “10 ستمبر سے قبل حکومت فارغ ہوجائے گی۔” فواد شاید یہ بھول گئے تھے ہر تاریخ کی طرح 10 ستمبر کی تاریخ بھی آتی ضرورہے۔ آنے کی چیز تھی، آکے رہی۔ اور جانے کی شئے تھی سو چلی بھی گئی۔ پر جو نہیں گئی وہ پی ڈی ایم حکومت تھی۔



اپریل سے شروع ہونے والا یہ تماشائے بیتابی صرف اور صرف اس مقصد کے لئے چلتا رہا کہ کسی طرح 29 نومبر سے قبل الیکشن یقینی بنا لئے جائیں۔ وہ الیکشنز جنہیں بندیال ایکسپریس مینج کروا لے اور نتیجتاً اخیر المؤمنین اپنا من پسند آرمی چیف متعین کرلیں۔ پے درپے ناک آؤٹ ہونے والے جب 10 ستمبر کے اس پار جا اترے تو تھکن سے چور تھے مگر چین پھر بھی نہ آیا۔ جب یہ واضح ہوگیا کہ الیکشن تو نومبر میں کسی صورت بھی اب ممکن نہیں رہے تو جو چند ہی روز قبل یہ فرما رہے تھے کہ آرمی چیف کے تقرر سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں، شہباز شریف جسے چاہیں بنا لیں، وہ یکایک کھل کر سامنے آگئے۔ اب وہ صاف کہہ رہے تھے کہ اپنے سوا کسی کو نیا آرمی چیف مقرر نہ کرنے دیں گے۔ اور یہ کہ شہباز شریف کو آرمی چیف کے تقرر کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ ظاہر ہے جس بندے نے کبھی شہزادوں کی گھڑیاں نہ بیچ کھائی ہوں اسے آرمی چیف کے تقرر کی اجازت کیسے دی جاسکتی ہے؟ شہباز شریف کو آرمی چیف کے تقرر سے روکنے کے لئے اخیرالمؤمنین انہی جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن دینے کا آئیڈیا بھی لے آئے جنہیں میر جعفر اور غدار قرار دیتے آرہے تھے۔

حد یہ ہوئی کہ یوٹیوب پر اپنے چمچہ نما میزبان رضا رومی کی فل ٹاس گیندوں پر چھکے مارنے والے نجم سیٹھی نے پنڈی پلان کے عنوان سے وہ اداریہ لکھ مارا جس کا ڈھول پیٹنا رضا رومی کی اولین ڈیوٹی ہے۔ تماشا دیکھئے کہ ایک ہفتے بعد رضا رومی نے جمعے کے روز پروگرام کا آغاز ہی اس ملائی مار سوال سے کیا کہ آپ نے جو پنڈی پلان والا اداریہ لکھا تھا، وہ تو سچ ثابت ہو رہا ہے۔ ذرا روشنی ڈالئے کہ اس پلان تک آپ پہنچے کیسے تھے؟ جواب میں نجم سیٹھی بیس منٹ تک اپنے دماغ کو خراج تحسین پیش کرتے چلے گئے اور رضا رومی بیچ میں وقفے وقفے سے وہی گھسا پٹا لفظ دہراتے رہے جو انہیں سیٹھی کی ہر جملے پر کہنے کا شاید سیٹھی کی جانب سے ہی حکم ہے۔ “جی بالکل ٹھیک” اور ٹھیک اڑتالیس گھنٹے بعد نجم سیٹھی اپنے پنڈی پلان والے آئیڈیے سے اتوار والے روز بھاگ نکلے۔ پنڈی پلان والے اداریے میں فرمایا تھا کہ جنوری سے مارچ کے مابین نئے انتخابات ہوں گے اور جنرل باجوہ کو ایکسٹینشن ملے گی۔ اور اب فرما رہے ہیں کہ الیکشنز تو اگست میں ہی ہوں گے۔ اور نئے آرمی چیف کا تقرر شہباز شریف ہی کریں گے۔

دوباتوں پر اپنے رب کے بیحد شکر گزار ہیں۔ پہلی یہ کہ ہمارے پاس کوئی چڑیا نہیں ہے، صرف ریکٹ ہے۔ اور دوسری یہ کہ ہمارا کوئی رضارومی ٹائپ چمچہ بھی نہیں ہے جو ہمیں بانس پر چڑھائے رکھ کر خوش فہمیوں میں مبتلا رکھ سکے۔ اس شکر کے بعد ایک سوال پوچھنا چاہتے ہیں۔ کیا اس بات کا ادنی ترین درجے میں بھی امکان ہوسکتا ہے کہ جس حاضر سروس فوجی افسر کے لئے اپنے پارٹی کے امیدوار برائے صوبائی اسمبلی کی طرح کوئی سیاستدان سیاسی مہم چلا رہا ہو اور وہ آرمی چیف بن جائے؟ یا اس سیاستدان کا یہ مطالبہ مانا جاسکتا ہے کہ آرمی چیف کی تقرری تب تک روکے رکھی جائے جب تک مجھے الیکشن جیتنے کا موقع نہ مل جائے؟ کیا یہ اعشاریہ ایک فیصد بھی ممکن ہے؟ لگتا ہے “فرائی پین ٹائمز” کے اداریہ نویس بھی آج کل مہنگائی کے سبب دیسی ٹھرا چڑھانے لگے ہیں۔ خان کا یہ مطالبہ ماننے کا مطلب یہ ہوگا آئندہ اس ملک میں جب بھی آرمی چیف کے تقرر کا موقع آئے گا تمام سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے فیورٹ کور کمانڈر کے لئے جلسے شروع کردیں گی، بلکہ ممکن ہے پوسٹر بھی چھپنے لگیں جن پر کور کمانڈر کی تصویر کے ساتھ جلی حروف میں درج ہو “نہ جھکنے والا، نہ بکنے والا، امیدوار برائے آرمی چیف” صرف یہی نہیں بلکہ سینیارٹی لسٹ کے ٹاپ فور جنرلز کو مختلف سیاسی جماعتوں کے ہیڈ کوارٹر جا کر اپنی کمپین چلانے کا موقع بھی دینا پڑے گا۔ کوئی بعید نہیں کہ نوبت یہ آجائے کہ کورکمانڈرز کی پوسٹنگ ٹرانسفر کے فیصلے بھی سیاسی جلسوں میں ہوں۔ کیا دنیا کی کوئی بھی فوج حماقت کے اس بدترین درجے کا تصور بھی کرسکتی ہے؟

اخیر المؤمنین کا دماغ ضرور چلا ہوگا مگر پاکستان آرمی میں سب کا ٹھیک ہے۔ اگر کسی ایک آدھ کا وہاں خراب ہے بھی تو وہ اپریل ایک بار پھر آ رہا ہے جس نے پچھلی بار اخیر المؤمنین سے ہماری جان چھڑائی تھی۔ فیض المؤمنین کے حصے میں بھی اپریل ہی ہے !

Related Posts