ازبکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس 15 اور 16 ستمبر کو ہوگا جس میں پاکستان، بھارت، روس، چین اور ترکی سمیت دیگر رکن ممالک شرکت کریں گے جبکہ پاکستان نے اجلاس سے کچھ نئی توقعات وابستہ کر لی ہیں۔
توقع کی جارہی ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں وزیر اعظم شہباز شریف، بھارتی ہم منصب نریندر مودی، چینی و روسی صدور اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے سربراہانِ مملکت شریک ہوں گے۔
سیاسی، اقتصادی اور عسکری شعبہ جات میں آپس میں تعاون کرنے والے ممالک کیلئے عالمی پلیٹ فارم سمجھی جانے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان بھی شامل ہیں۔
دوسری جانب پاکستان نے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک سے زراعت میں معاہدہ کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ وزیر اعظم شہباز شریف دورۂ ازبکستان کے دوران معاہدے پر دستخط کریں گے جسے زرعی شعبے میں اہم پیشرفت قرار دیا جارہا ہے۔
گزشتہ روز وزیر اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں سرکولیشن کے ذریعے زرعی شعبے میں معاہدے کی منظوری وفاقی کابینہ اراکین سے بھی لے لی گئی جبکہ ماضی میں شنگھائی تعاون تنظیم کی جانب سے پاکستان سے مختلف شعبہ جات میں تعاون بھی کیا گیا۔
اگر ہم شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت کی بات کریں تو پاکستان اور بھارت کی شمولیت کے بعد سے تنظیم کا دائرہ بحرِ ہند کے ساحلوں تک پھیلا اور اگر بھارت کی آبادی بھی ملا لی جائے تو شنگھائی ممالک کی آبادی دنیا کی کل آبادی کا کم و بیش نصف بنتی ہے۔
رقبے کے اعتبار سے شنگھائی تعاون تنظیم کے ممالک دنیا کے سب سے بڑے براعظم ایشیا کے 77 فیصد زمینی رقبے کے مالک ہیں جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک میں ازبکستان، قازقستان اور تاجکستان تیل و گیس کے وسیع ذخائر کے مالک ہیں۔
اس بین الاقوامی تنظیم کی تاریخ گواہ ہے کہ جب ایک ملک کو مدد کی ضرورت پڑی تو دوسرے نے تعاون کیا اور جب دوسرے نے دستِ سوال دراز کیا تو پہلے کی جانب سے بے بنیاد انکار نہیں کیا گیا کیونکہ بنیادی طور پر تمام ممالک کے مفادات ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔
الغرض شنگھائی تعاون تنظیم سے زراعت سمیت مختلف شعبہ جات میں دو طرفہ تعاون، معاہدوں اور سرمایہ کاری کی دعوت دے کر پاکستان میں انقلاب لایا جاسکتا ہے اور بلاشبہ زرعی شعبے میں معاہدے کی نوید کو اس ضمن میں ایک مثبت قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔