مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ملک بھر میں سیلاب سے ہزاروں افراد جاں بحق، ہزاروں زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوئے ہیں تاہم امدادی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت 9 لاکھ 24 ہزار سے زائد خاندانوں میں 23 ارب سے زائد رقم تقسیم کی گئی۔

بظاہر 23 ارب کی رقم 9 لاکھ 24 ہزار خاندانوں کیلئے کافی لگتی ہے تاہم اگر غور کیا جائے تو فی خاندان کم و بیش 2000 سے2500روپے دئیے گئے۔مالی امداد  81 فیصد شناخت شدہ خاندانوں میں تقسیم کی جاچکی ہے۔ بلوچستان میں 112،485 خاندانوں کو 2 ارب 81 کروڑ سے زائد رقم دی گئی۔

گزشتہ روز اپنے ایک بیان میں وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کہا کہ اگر رواں برس گندم کی فصل کی پیداوار نہ ملی تو قحط جیسی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔ وزیرِ اطلاعات کا کہنا تھا کہ سندھ کابینہ نے 23-2022 کیلئے گندم کی قیمت 4 ہزار روپے فی من مقرر کردی۔مشیرِ زراعت منظور وسان نے کہا کہ سیلاب کے باعث زمینی ڈوبی ہونے کی وجہ سے نئی فصل کی تیاری کیلئے ہاریوں کو سخت محنت کرنا ہوگی۔ 

پاکستان کی 75 سالہ تاریخ میں جو تباہی رواں برس 2022 کے سیلاب نے مچائی ہے، اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ 2010 میں جو سیلاب آیا تھا، اس نے بھی بستیوں کی بستیاں اجاڑ دیں، کئی ماہ پانی ایک جگہ کھڑا ہونے کے باعث سیم وتھور کے مسائل پیدا ہوئے اورپھر کسانوں کو سود پر رقم لے کر کاشتکاری کرنی پڑی۔

تاہم موجودہ سیلاب میں ملکی معیشت کو اربوں ڈالرز کا نقصان پہنچا ہے اور فصلیں تباہ ہوجانے کے باعث ملک کے مختلف شہروں میں قحط جیسی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے اور یہ مسئلہ صرف پاکستان کے ساتھ نہیں ہے۔

آج سے 3 ماہ قبل جون کے دوران عالمی بینک کا کہنا تھا کہ یوکرین میں جنگ، چین میں کورونا لاک ڈاؤن اور سپلائی چین متاثر ہونے کی وجہ سے عالمی ترقی پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ یوکرین روس جنگ نے توانائی اور گندم کی عالمی تجارت درہم برہم کرکے رکھ دی۔

عالمی بینک کا کہنا تھا کہ ابھی دنیا کورونا کے منفی اثرات سے نکل ہی نہیں پائی تھی کہ اسے روس یوکرین جنگ کے باعث غذائی اشیاء کی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں عوام کی قوتِ خرید متاثر ہوگی۔ غذائی قلت کے نتیجے میں بھوک بڑھ جائے گی اور قحط بھی پھیلنے کا خدشہ ہے۔

کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان جیسے زرعی ملک کو گندم کیلئے دیگر ممالک پر انحصار کرنا پڑے گا مگر ماضی کی حکومتوں نے جو پالیسیاں اپنائیں اور کسانوں کا جس طرح استحصال ہوا، اس نے ہمیں گندم برآمد کی بجائے درآمد کرنے والے ممالک میں لا کھڑا کیا ہے۔

رواں برس گندم کی مجموعی پیداوار کا ہدف 28.89 ملین میٹرک ٹن تھا، اور ملکی سطح پر گندم کی مجموعی کھپت کا تخمینہ 30 اعشاریہ 79 ملین میٹرک ٹن لگایا گیا لیکن سیلاب کے باعث مجموعی پیداوار کا ہدف حاصل ہونا کسی خواب کے سچ ہونے سے کم نظر نہیں آتا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کسان دوست پالیسیاں اپنائے، موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کیلئے بڑے پیمانے پر انقلابی اقدامات ضروری ہیں جبکہ عالمی سطح پر یوکرین روس جنگ اور چین امریکا تنازعات سمیت دیگر اہم مسائل کے حل کیلئے عالمی برادری کو سر جوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔ 

Related Posts