شکور شاد کا استعفیٰ

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان تحریکِ انصاف کے رکنِ قومی اسمبلی عبدالشکور شاد جب پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کیلئے امیدوار بنے تو اس کا آن لائن فارم راقم الحروف نے پر کیا تھا۔یہ 2018ء کے وسط کی بات ہے۔ 

صوبائی و قومی اسمبلی کی نشستوں کیلئے پی ٹی آئی ٹکٹ کے متعدد امیدواروں کے فارمز میں نے پر کیے۔ میری ڈیوٹی پی ٹی آئی کے پارٹی سیکرٹریٹ انصاف ہاؤس میں تھی اور ایک غیر سیاسی ملازم کے طور پر میں نے اپنے فرائض سرانجام دئیے۔

گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ نے رکنِ قومی اسمبلی شکور شاد کی جانب سے استعفیٰ منظوری چیلنج کیے جانے کے کیس میں ریمارکس دئیے کہ ہم نے پی ٹی آئی کے 11 اراکین کے استعفوں کی منظوری کو معطل نہیں کیا۔

عدالت نے واضح کیا کہ جس رکن نے درخواست دی تھی یعنی عبدالشکور شاد کی حد تک استعفیٰ معطلی کا نوٹیفکیشن معطل کردیا گیا ہے۔ رکنِ قومی اسمبلی کے وکیل نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے تو 11 ممبران کیلئے مشترکہ نوٹیفکیشن جاری کیا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا تھا کہ نوٹیفکیشن تو سب کا مشترکہ ہے تاہم عدالت نے صرف ایک ممبر کی حد تک ہی نوٹیفکیشن کو معطل کیا ہے۔ بعد ازاں مقدمے کی سماعت ملتوی کردی گئی۔

قبل ازیں عبدالشکور شاد نے جب ہائیکورٹ میں کیس دائر کیا تو اس پر پی ٹی آئی نے ان کے خلاف بطور رکن ایکشن لیتے ہوئے ان کی پارٹی رکنیت معطل کردی اور شوکاز نوٹس بھی جاری کیا گیا جو پی ٹی آئی سندھ کی جانب سے جاری ہوا۔

شوکاز نوٹس میں کہا گیا کہ آپ نے ہاتھ سے لکھا ہوا استعفیٰ جمع کرایا اور پھر اس کو ذاتی ٹوئٹر اکاؤنٹس سے شیئر کیا۔ اپنا ٹوئٹر اسٹیٹس سابق ایم این اے بھی کیا اور این اے 246 ضمنی الیکشن میں عمران خان کے کورنگ امیدوار بن کر کاغذاتِ نامزدگی بھی جمع کرادئیے۔

نوٹس میں کہا گیا کہ شکور شاد مختلف مواقع پر پارٹی پالیسی کے خلاف میڈیا پر گفتگو کرتے رہے ہیں۔ اچانک آپ نے پارٹی پالیسی کے خلاف اسلام آباد ہائیکورٹ میں کیس کیا اور مؤقف یہ اختیار کیا کہ آپ نے استعفیٰ نہیں دیا؟

یہاں یہ سوال کیا جاسکتا ہے کہ عبدالشکور شاد تو اپنی قومی اسمبلی کی رکنیت بچا رہے ہیں، اس پر پی ٹی آئی کو اعتراض کیوں ہے؟ تو پی ٹی آئی کا اعتراض آج سے نہیں بلکہ اس روز سے ہے جب سے عمران خان کو تحریکِ عدم اعتماد لا کر وزارتِ عظمیٰ سے محروم کیا گیا تھا۔

اس موقعے پر پی ٹی آئی چاہتی تو اپوزیشن کی بینچوں پر جا کر بیٹھ سکتی تھی اور اگر ایسا کیا جاتا تو موجودہ حکومت جسے تحریکِ انصاف نے امپورٹڈ حکومت کا نام دے رکھا ہے، بہت مشکل میں پڑسکتی تھی۔

تاہم پی ٹی آئی نے ایسا کرنے کی بجائے اپنے اراکین کو مستعفی ہونے کی ہدایات جاری کردیں جس کا مقصد موجودہ حکومت کو جلد از جلد گھر بھیجنا اور عمران خان کی جانب سے کیے گئے فوری عام انتخابات کے مطالبے کو تقویت دینا تھا۔

شاید عبدالشکور شاد یہ سمجھ رہے ہوں کہ چونکہ استعفے دینے سے موجودہ حکومت کو کوئی فرق نہیں پڑا، اس لیے بہتر ہے کہ اپنی رکنیت بچا لی جائے، تاہم پارٹی قیادت نے اس خیال کو مسترد کرتے ہوئے انہیں اظہارِ وجوہ کا نوٹس بھیجا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ رکنیتِ قومی اسمبلی کا یہ اونٹ آگے چل کر کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ 

Related Posts