مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان میں سیاسی رہنما جو سیاست کرتے ہیں وہ تو کرتے ہی ہیں کہ ان کا کام ہے۔ ہم یہ سیاست اور اس کے اثرات دیکھتے بھی ہیں اور اس پر بساط بھر اپنے تجزیے کا نشتر بھی چلاتے ہیں تاہم منجھا ہوا تجزیہ کار اسے نہیں کہتے جس کا ہر تجزیہ درست ثابت ہو۔

ہر بات صرف اللہ اور اس کے رسول کی ہی درست ثابت ہوسکتی ہے۔ عام انسان کیا اور اس کا اندازے پر مبنی تجزیہ کیا۔ منجھا ہوا تجزیہ کار وہی کہلاتا ہے جس کا تجزیہ اکثر درست ثابت ہوتا ہو۔ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ سیاسی تجزیے کا ہنر جانتا ہے۔ تجزیہ کوئی راکٹ سائنس نہیں ہوتا ہے کہ اس پر سائنسی کلیے لاگو ہوجائیں اور چیزیں تھیوری کے مطابق ٹھیک ٹھیک جگہ بیٹھ جائیں۔

ہر سیاسی صورتحال اپنی ایک تہہ در تہہ پیچیدگی رکھتی ہے۔ اس پیچیدگی میں بھی نصف کارڈ تو نظر آرہے ہوتے ہیں جبکہ نصف کارڈ سیاستدانوں نے سینے سے لگا رکھے ہوتے ہیں۔ تجزیے کے درست یا غلط نکلنے میں مرکزی کردار انہی کارڈز کا ہوتا ہے جو سینے سے لگا کر چھپائے گئے ہوتے ہیں۔ ایک تجزیہ کار صورتحال کا تجزیہ کرنے سے قبل سرتوڑ کوشش یہی کرتا ہے کہ کسی طرح ان سینے سے لگے کارڈز کی جھلک ہی نظر آجائے۔ اس قسم کی صورتحال میں سینے سے کارڈ لگائے سیاستدان بالعموم کچھ سگنلز ضرور دے رہے ہوتے ہیں۔



یہ سگنلز بالعموم بلف ہی ہوتے ہیں۔ مگر اس بلف کا بلف ہونا کنفرم کرنا ہی تجزیہ کار کا کام ہوتا ہے۔ آپ ہر سگنل کو بلف سمجھنے کی غلطی نہیں کرسکتے۔ چنانچہ تجزیہ کار زمینی حقائق کی روشنی میں اندازہ لگانے کی کوشش کرتا ہے کہ جو سگنلز دیئے جا رہے ہیں وہ حقیقت پر مبنی ہو بھی سکتے ہیں یا نہیں؟

ایک وقت تھا جب تجزیہ کاری ایک سنجیدہ سرگرمی ہوا کرتی تھی۔ پچھلے سات آٹھ سال میں کچھ ایسے تجزیہ کار بھی سنڈیوں کی طرح اگ آئے ہیں جو سیاسی حقائق کا تجزیہ نہیں کرتے بلکہ خواہش کو خبر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ اس ان سالوں میں ان کا ایک بھی تجزیہ ایسا نہیں جو درست ثابت ہوا ہو۔

مثلاً عمران خان نے جب دور اقتدار کے آغاز پر ڈیم فنڈ کے لئے بیرون ملک پاکستانیوں سے ایک ہزار ڈالرز بھیجنے کی اپیل کی تو ہمارے ایک دوست نے اس پر کالم لکھ کر تاریخ کا سب سے بڑا سبز باغ اگا ڈالا۔ موصوف نے دعویٰ کردیا کہ شروع میں تھوڑے تھوڑے ڈالر آئیں گے مگر پھر گھٹائیں اٹھیں گی اور ڈالروں کا ایسا مینہ برسے گا کہ تربیلا ڈیم بھی ان ڈالرز کو سمیٹنے کے لئے کم پڑ جائے۔ اس کے برخلاف ہم نے ایک سادہ سی بات کہی جو تاریخی پس منظر پر مبنی تھی۔ اور وہ یہ کہ چندوں سے میگا پروجیکٹس بننا ممکن ہوتے تو اس وسیع و عریض کرہ ارض پر انسانی تاریخ میں کبھی تو ایسا ہوا ہوتا۔

نتیجہ یہ کہ ہمارا یہ سادہ سا تجزیہ نوشتہِ دیوار ثابت ہوا۔ جبکہ ہمارے دوست کی وہ کوشش رائیگاں گئی جو انہوں نے اخبار مالک کو متاثر کرنے کے لئے فرمائی تھی۔ اس طرح کے تجزیہ کاروں کی نشانی یہ ہوتی ہے کہ ان کے تجزیوں میں مکھن تھوک کے حساب سے ملتا ہے۔ یہ وافر مکھن کی ہی کاررستانی ہوتی ہے کہ اخبار کی سالگرہ پر مالکان کو بھی مکھن لگانے سے باز نہیں آتے۔ آج ایک کو مکھن لگا رہے ہیں، تو کل دوسرے اخبار گئے اور وہاں بھی یہی دھندہ شروع کردیا۔

آج ایک اخبار میں نوکری ہے تو اسے حق و صداقت کا علمبردار بتا کر پورے یقین کے ساتھ دعویٰ فرما رہے ہوتے ہیں کہ حق گوئی تو ان کے موجودہ مالکان پر ختم ہے۔ کل دوسرا اخبار جوائن کر لیا تو وہی ڈونگرے اس مالک پر بھی نچھاور کرنے شروع کر دیئے۔ اور مالکان وقت آنے پر ان کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو اے آر وائی والوں نے اپنے تمام ارشد شریفوں کے ساتھ کیا۔

یہ تو ذکر تھا ان تھرڈ کلاس تجزیہ کاروں کا جو خواہشات کو خبر بنانے کے چکر میں رہتے ہیں۔ اور خواہشات کو بھی ہمیشہ مالکان کی خواہش کے تابع رکھتے ہیں۔ مگر خود غرض تجزیہ کاروں کی ایک کلاس اور بھی ہے، وی وی آئی پی کلاس۔ جس زمانے میں پاکستان میں گنتی کے چند اخبار ہوا کرتے تھے اور ٹی وی فقط پی ٹی وی ہوا کرتا تھا تب اس نوع کے تجزیہ کاروں کے دو تین ہی اہداف ہوا کرتے تھے۔

پہلا یہ کہ کسی طرح پی ٹی وی پر کوئی پروگرام مل جائے۔ دوسری یہ کہ تکے سے ملک میں بطور سفیر تعینات ہو جائیں۔ تیسری یہ کہ بینک سے قرضہ مل جائے جو بعد میں معاف کرالیا جائے۔ مگر جب سے پرائیویٹ ٹی وی چینلز آئے ہیں، وی وی آئی پی تجزیہ کاروں کی وارداتیں بھی زیادہ شارپ ہوگئی ہیں۔

آپ حالیہ دنوں میں نجم سیٹھی کی اچھل کود ہی دیکھ لیجئے۔ پی ڈی ایم کی حکومت جیسے ہی آئی، ان کی بانچھیں کھل گئیں کہ پی سی بی کی چیئرمین شپ ان کی گود میں اب گری کہ تب گری۔ پہلے ہی 2 ماہ میں واضح ہوگیا کہ شہباز شریف کا بندربانٹ کا کوئی موڈ نہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کسی بھی غیر ضروری اکھاڑ پچھاڑ میں دلچسپی نہیں رکھتی تو انہوں نے خیر سے یہ دعویٰ فرما دیا کہ حکومت بس چند دن کی مہمان ہے۔

کسی کو شک ہو تو ان کا 25 مئی 2022 والا پروگرام اٹھا کر دیکھ لے۔ اس پروگرام میں موصوف نے پورے یقین کے ساتھ دعویٰ فرما رکھا ہے کہ عمران خان اسلام آباد میں داخل ہوگئے ہیں۔ اب یہ ڈیرہ جما کر بیٹھ جائیں گے اور عدلیہ مصالحت کے نام پر انہیں الیکشن کی تاریخ دلوا کر روانہ کرے گی۔ رات انہوں نے یہ پروگرام کیا اور صبح جب قوم جاگی تو عمران خان پشاور جا چکے تھے۔ پیچھے بس کچھ جلے ہوئے درخت ہی رہ گئے تھے۔

موصوف کا ایک بڑا شوق یہ ہے کہ کسی پچھلے پروگرام کی ایسی پیشنگوئی ضرور اپنے پروگراموں میں چلواتے ہیں جب ان کی ہلکی پھلکی سی پیشنگوئی جزوی طور پر پوری ہوگئی ہو۔ مگر اپنے یہ بلنڈرز وہ پوری طرح گول کر جاتے ہیں۔ 25 مئی والے بلنڈر کی ناکامی کے بعد یہ لندن جا بیٹھے۔ رائتہ کچھ زیادہ ہی پھیل گیا تھا سو سمیٹنا تو تھا۔ یوں کافی دن وہاں رہے۔

جاننے والوں کو کہنا تھا کہ آخر میں معاملہ وہی رمیز راجہ کی نوکری کھانے کی کوشش کا تھا مگر مہینہ بھر کے منت ترلے بھی کام نہ آئے۔ اب آج کل انہیں پھر پی ڈی ایم حکومت خطرے میں نظر آنی شروع ہوگئی ہے۔ موصوف کی تازہ شرلی یہ ہے کہ اکتوبر تک موجودہ حکومت کی جگہ عبوری حکومت آجائے گی۔

حماقت کی انتہا دیکھئے کہ 70 فیصد ملک سیلاب میں ڈوبا ہے، نوبت یہ ہے کہ ضمنی الیکشن تک یہ کہہ کر ملتوی ہوگئے کہ سیلاب کی پیدا کردہ صورتحال میں یہ ضمنی الیکشن ممکن نہیں۔ اور ان حضرت کو جنوری میں عام انتخابات نظر آ رہے ہیں۔ حالانکہ زمینی حقیقت تو یہ ہے کہ جن عام انتخابات نے معمول کے مطابق اگلے سال اگست میں ہونا ہے، ممکن ہے وہ بھی ایک سال مزید ٹل جائیں ۔ کیونکہ فی الحال تو سیلابی پانی نکالنے کا چیلنج ہے۔ اس کے بعد سیلاب متاثرین کی بحالی کا وسیع چیلنج درپیش ہوگا۔

پورے پورے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ جنہیں دوبارہ کھڑا کرنا ہے۔ پھر ایک بڑا بحران اس فصل کا ہوگا جو اگلے سال دستیاب نہ ہو پائے گی اور پاکستان کو غذائی ضرورت پوری کرنے کے لئے عالمی مارکیٹ سے رجوع کرنا ہوگا۔ مگر ایک نام نہاد تجزیہ کار کو اس ہنگامی صورتحال میں خود غرضی کی دکان چلانے سے فرصت نہیں۔ اور یہ سارا گند پھیلایا کیوں جا رہا ہے؟ بس اتنی سی بات کے لئے کہ رمیز راجہ کو ہٹا کر انہیں چیئرمین پی سی بی کیوں نہیں لگایا جا رہا؟

حکومت آج انہیں چیئرمین پی سی بی لگانے کا اعلان کردے تو کیا وہ یہ کہہ کر اسے قبول کرنے سے انکار کر دیں گے کہ اس حکومت نے تو اکتوبر میں رخصت ہونا ہے، ان حالات میں تو پی سی بی کی چیئرمین شپ بھی عارضی ہی ثابت ہوگی۔ لہٰذا مجھے نہیں چاہئے؟ نہیں! وہ نہ صرف یہ چیئرمین شپ قبول کرلیں گے بلکہ دلائل سے ثابت بھی کرنے لگیں گے کہ موجودہ حکومت تاریخ کی مضبوط ترین حکومت ہے۔

نجم سیٹھی کی تو ہم نے بس ایک مثال دی ہے۔ ورنہ یہاں تنخواہ کے نام پر قوم کے کروڑوں روپے ڈکارنے والے عطاء الحق قاسمی سے لے کر وزیر اعظم ہاؤس کے مکین رہنے والے عرفان صدیقی تک ایک قطار لگی ہے، اور ان کی بھی کمی نہیں جو خوانِ نعمت سے سی ڈی اے کے کروڑوں روپے کے ٹھیکے وصول کرتے رہے ہیں۔ کوئی محمد مالک سے پوچھ سکتا ہے کہ آپ تجزیہ کار ہو یا ٹھیکیدار؟ اس پوری صورتحال میں جس چیز کا جنازہ نکل گیا ہے وہ صحافت اور تجزیہ کاری ہے۔

ستم دیکھئے کہ یہی خود غرض لوگ پوری بے شرمی کے ساتھ ٹی وی سکرین پر جلوہ افروز ہوکر ہمیں یہ پٹیاں پڑھاتے ہیں کہ کس کس سیاستدان، جرنیل اور جج نے اس ملک کو کیسے کیسے لوٹا ہے؟ شرم تم کو مگر نہیں آتی !

Related Posts