مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

جولائی 2019ء کی بات ہے۔ ہمیں اسلام آباد سے کراچی شفٹ ہوئے تیسرا دن تھا۔ اور تین دن سے صورتحال یہ تھی کہ سارا دن مکان کو گھر کا روپ دینے میں صرف ہوجاتا۔ صبح سوچتے آج شام تک سب ٹھیک ہوجائے گا مگر شام آتی تو لگتا کچھ کیا ہی نہیں۔

موسم حبس کا تھا سو اس صورتحال میں طبیعت شدت سے چڑچڑی ہوچلی تھی۔ اچانک ہمارے فون پر کسی اجنبی نمبر سے کال آئی۔ کال کرنے والے نے اپنا نام فواد شیروانی بتایا، اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔ ہم نے روکھا سا جواب دیدیا کہ ہفتہ دس دن تک گھر کی سیٹنگ سے ہی فارغ نہ ہوپائیں گے لہٰذا تب تک انتظار فرمایئے۔ آگے سے کہا گیا، اگر ہمارے لائق کوئی خدمت ہو تو حکم کیجئے گا۔ ہم نے تپ کر کہا “انٹرنیٹ کنکشن درکار ہے، دلواسکتے ہیں ؟” یہ ہم نے اس لئے کہا کہ پی ٹی سی ایل ہمیں جواب دے چکا تھا کہ ہمارے پاس کوئی سلاٹ دستیاب نہیں۔ سو ہم نے یہی سوچا کہ فواد کہیں گے کہ یہ کام تو ہم نہیں کرسکتے۔ یوں ہم ان سے کہدیں گے کہ اس سے چھوٹی خدمات فی الحال ہمارے پاس دستیاب نہیں، آپ ملاقات کے لئے دس روز بعد رابطہ کیجئے۔ مگر فواد نے کہا “یہ تو معمولی سا کام ہے، اپنے گھر کا ایڈریس وٹس ایپ کر دیجئے” آدھے گھنٹے بعد ہمیں پی ٹی سی ایل سے کال آگئی کہ کنکشن فیس جمع کروا لیجئے۔ اور اگلے روز کنکشن لگ گیا۔ یوں ہم نے فواد کو فوراً ہی بکھرے گھر پر مدعو کر لیا۔ ملاقات پر پتہ چلا کہ فواد جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور دوسروں کے کام آنا ان کا سب سے بڑا شوق ہے۔ اور ہماری خوش قسمتی کہ رہتے وہ بھی معمار میں ہی ہیں۔

انہی دنوں ایک روز نصف شب کو بجلی چلی گئی۔ معاملہ لوڈ شیڈنگ کا نہ تھا کیونکہ بجلی صرف ہماری غائب تھی۔ ہم نے رات ڈیڑھ بجے فواد کو کال کرکے آگاہ کیا۔ وہ دو بجے شب کے الیکٹرک کی گاڑی سمیت حاضر ہوگئے۔ اور دس منٹ میں بجلی بحال کروا گئے۔ اگلے کچھ ہی عرصے میں جماعت اسلامی کی مزید اہم شخصیات نے بھی ہماری بیٹھک کو رونق بخشی جن میں نائب امیر جماعت اسلامی ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی سر فہرست ہیں۔

قابل توجہ پہلو یہ ہے کہ کراچی شفٹ ہوتے ہی جماعت اسلامی کے احباب نے اس شخص کو “گھیر” لیا تھا جو ان کی جماعت پر جم کر تنقید کرتا آیا تھا۔ اور اس گھیراؤ میں نہ تو یہ سوال تھا کہ آپ ہم پر تنقید کیوں کرتے ہیں ؟ اور نہ ہی یہ فرمائش تھی کہ للہ اب جان بخش بھی دیجئے۔ بلکہ الٹا یہ کہ جب ہم نے ملاقاتوں میں بھی جماعت کی کسی حکمت عملی یا پالیسی پر تنقید کی تو ہمارے ہر جملے پر یہی کہا گیا “آپ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں”

اس سے بھی زیادہ قابل غور پہلو یہ ہے کہ ہم اسلام آباد سے کراچی شفٹ ہوئے تھے۔ اور اسلام آباد میں ہمارا قیام 25 برس پر محیط رہا تھا۔ ان پچیس برسوں میں حرام ہے جو کسی جماعتیے نے ہمیں گھاس ڈالی ہو۔ جبکہ جماعت اسلامی کراچی ہمیں پہلے ہی پچیس روز میں پوری طرح انگیج کرچکی تھی۔ جانتے ہیں دونوں شہروں کی جماعت اسلامی ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہے ؟ بنیادی فرق ہے “الخدمت”۔ جماعت اسلامی کی اس فلاحی تنظیم کا گھر کراچی ہے۔ اس شہر کی جماعت اسلامی کا ذوق لیڈرشپ کا نہیں بلکہ خدمت کا ہے۔ یہاں جماعت اسلامی سیاسی سرگرمیاں تب کرتی ہے جب کسی آفت کے نہ ہونے کے سبب اسے خدمت سے فرصت ہو۔ یہ اسی ذوق خدمت کا ہی تو نتیجہ تھا کہ ہمارے کراچی پہنچنے کی اطلاع پاتے ہی فواد شیروانی نے ہمیں گھیر لیا تھا۔ یقین جانئے انہیں ہم سے کچھ مطلوب ہوتا تو چار سال اس کے اظہار کے لئے بہت تھے۔ پچھلے چار سال سے بس ہم ہی فرمائشیں کئے جا رہے ہیں اور ہر فرمائش پوری ہوتی جا رہی ہے۔

الخدمت کا کمال یہ نہیں کہ اس نے خدمت کے میدان میں اپنا لوہا منوا رکھا ہے۔ بلکہ کمال یہ ہے کہ اس کے دامن پر ایک بھی چھینٹ نہیں ہے۔ یہ بلاشبہ اربوں روپے ڈونیشن جمع کرکے اسے ملک کے طول عرض میں خرچ کرنے والی تنظیم ہے۔ مگر سالہا سال سے مصروف اس تنظیم کا ایک بھی مالیاتی یا انتظامی نوعیت کا اسکینڈل نہیں ہے۔ ورنہ اسی ملک میں وہ صادق و امین بھی تو ہے جس نے چیریٹی کی رقم سیاست پر خرچ کر ڈالی ہے۔ اور جس کے خفیہ بینک اکاؤنٹ مسلسل برآمد ہوتے جا رہے ہیں۔

پاکستان کو اس وقت بدترین نوعیت کی آفت کا سامنا ہے تو پوری جماعت اسلامی “الخدمت” میں کنورٹ ہو گئی ہے۔ اس کا سارا فوکس خدمت ہے۔ اور خدمت بھی اس درجے کی کہ جماعت اسلامی کے بدترین مخالفین بھی اسے داد دیئے بغیر رہ نہ پائے۔ حتیٰ کہ مسلمہ دہریے بھی اس کے لئے رطب اللسان ہیں۔ لیکن نام نہاد “چیریٹی چیمپئن” کا یہ حال ہے کہ اس آفت میں بھی اس کی ترجیح اپنے اقتدار کی جنگ ہے۔ وہ شہر شہر جلسہ جلسہ کھیل رہا ہے۔ اور اس کھیل میں بھی اس کی پستی کا یہ عالم ہے کہ ابھی کچھ ہی عرصہ قبل وہ کسی اور کو میر جعفر کا خطاب دئیے بیٹھا تھا لیکن آج اس کی اپنی جماعت سے چار عدد میر جعفر ظاہر ہوچکے ہیں۔ ایک نے فوج میں بغاوت پیدا کرنے کی کوشش کی تو دیگر تین پاکستان کی معاشی شہہ رگ پر چھرا پھیرنے کی کوشش کرتے رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں۔

یہ ایسا ہی تھا جیسے فائر بریگیڈ شعلوں میں گھری عمارت کی آگ بجھانے کی کوشش کر رہی ہو اور اور کچھ نمک حرام پچھلی گلی سے اسی عمارت پر پیٹرول چھڑک رہے ہوں۔ بنی گالہ کے عالم پناہ کا کیا جاتا ہے۔ اولاد تو اس کی انگلینڈ میں بیٹھی ہے۔ اور اربوں روپے کے خفیہ بینک اکاؤنٹس ہیں کہ برآمد ہوتے جا رہے ہیں۔ سو عالم پناہ کو کس چیز کی کمی ؟ زندگی تو ان کی اجیرن ہے جن پر اس نحوست کو مسلط کیا گیا تھا۔ اور یہ سیلاب کی آڑ میں ملکی معیشت کو مزید تباہی سے دوچار کرنے جا رہے تھے۔ سیدھا سیدھا غداری کا کیس ہے مگر حکومت کی جانب سے کوئی ایکشن نظر نہ آیا۔ شاید اس لئے کہ وہ جانتی ہے سوموٹو والے برا مان جائیں گے۔

Related Posts