پاکستان میں تباہ کن سیلاب کوئی نئی بات نہیں، لیکن بدقسمتی سے ہم نے بحیثیت قوم اب تک اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیاہے اور ہماری اس غیر سنجیدہ روش کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ہم نے ابھی تک ایسی جامع قومی پالیسی تک وضع نہیں کی ہے جو سیلاب کی تباہ کاریوں کو روک سکے یا اس کو کم سے کم تر کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں بار بار مون سون کے موسم میں ان تباہ کاریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں اپنی جگہ لیکن پاکستان میں سیلاب سے وسیع پیمانے پرہونے والی تباہی کی بڑی وجوہات میں ہماری اپنی غلطیاں بھی شامل ہیں۔ کئی قومی اور بین الاقوامی تحقیقی رپورٹس نے تجویز کیا ہے کہ مون سون کی طوفانی بارشوں اور سیلاب سے ہونے والی بڑی تباہی سے مناسب انتظام کے ذریعے بچا جا سکتا ہے۔
ان رپورٹس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سیلابی پانی کے قدرتی راستوں میں تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات نقصانات کو کئی گناہ بڑھا دیتے ہیں۔ اگر ملک کے شہری اور دیہی علاقوں میں ان تجاوزات کو ختم کیا جائے تو ان نقصانات کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹس میں سیلاب کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے چھوٹے ڈیموں اور پانی کے دیگر ذخائر کی تعمیر کا بھی مشورہ دیا گیا ہے۔
اس سال ایک بار پھر ملکی تاریخ کے بدترین سیلاب نے پاکستان بھر میں تباہی مچا دی ہے اور حکومت اور عوام دونوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی ہے ،لیکن بدقسمتی سے ہمارے ٹریک ریکارڈ سے آشکار ہے کہ چند ہفتوں کے بعد پوری قوم اس سنگین قومی مسئلے کو یکسر بھول جائے گی اور اس وقت تک بھولی رہے گی جب تک کہ آئندہ دوبارہ اس صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اس بار ہمیں سیلاب کی تباہ کاریوں سے سبق سیکھنا چاہیے اور اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے کیونکہ قوم اس حوالے سے مزید غفلت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ سیلاب متاثرین کی امداد اور بحالی سے فراعت کے بعد پوری قوم کو چاہیے کہ وہ سر جوڑ کر بیھٹے اورقوم کے اجتماعی دانش کو بروئے کار لاتے ہوئے مستقبل میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچنے کے لئے ایک جامع قومی پالیسی مرتب کرے۔
یقین جانیں ،اگر ہم ایسی پالیسی بنانے میں کامیاب ہو گئے اور پھراس پر اس کی اصل ر وح کے مطابق عملدرآمد بھی کروایا تو نہ صرف سیلاب کی تباہ کاریوں کو روک سکتے ہیں بلکہ سیلاب کے قیمتی پانی کو مناسب طریقے سے ذخیرہ کرکے اس سے ملک کی لاکھوں ایکڑ بنجر زمین کو سیراب کرسکتےہیں اوریوں اس تباہی کو ملکی تعمیر اور خوشحالی میں تبدیل کرسکتے ہیں۔