طالبان کی واپسی

مقبول خبریں

کالمز

Firestorm in the Middle East: Global Stakes on Exploding Frontlines
مشرق وسطیٰ میں آگ و خون کا کھیل: عالمی امن کیلئے خطرہ
zia-2
آٹا 5560 روپے کا ایک کلو!
zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے آبائی علاقے ضلع سوات کی تحصیل مٹہ میں تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دوبارہ سر اٹھانے نے بہت سے خدشات کو جنم دیا ہے۔

مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ سوات میں طالبان کا کوئی مخصوص علاقہ نہیں ہے۔ سوات میں ایک حالیہ ویڈیو میں ٹی ٹی پی نے اعلان کیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ جاری مذاکرات میں جنگ بندی کی وجہ سے سوات واپس آئے ہیں اور ان کی پولیس یا دیگر سیکیورٹی فورسز سے کوئی دشمنی نہیں ہے کیونکہ وہاں جنگ بندی موجود ہے۔

وزیر دفاع نے بھی معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ طالبان کے سوات میں داخل ہونے کی خبروں کی تحقیقات کررہے ہیں۔

طالبان اور پولیس کے درمیان حالیہ جھڑپ میڈیا کی سرخیوں میں رہی۔ بعد ازاں طالبان نے فائرنگ کے تبادلے میں پکڑے گئے متعدد پولیس اہلکاروں کو بھی حوالے کر دیا۔ طالبان نے یہ بھی اعلان کیا کہ وہ افغان طالبان کی ثالثی میں افغانستان میں جاری مذاکرات کے تناظر میں ان کی اور حکومت کی طرف سے اعلان کردہ جنگ بندی کے نتیجے میں کئی سال بعد اپنے آبائی علاقے سوات آئے ہیں۔

واضح رہے کہ ضلع سوات کی سرحد افغانستان ے نہیں ملتی بلکہ افغان سرحد ضلع لوئر دیر کے علاقےمیدان سے سوات کے علاقے مٹہ تک جایا جا سکتا ہے۔ میدان کا علاقہ مولانا صوفی محمد کا آبائی علاقہ بھی ہے، جو تحریک نفاذ شریعت محمدی کے سابق سربراہ تھے جنہوں نے 1990 کی دہائی میں اپنی شریعت کی تحریک کا آغاز کیا تھا۔

وادی سوات میں تنازعہ 1990 کی دہائی کے اوائل میں سامنے آیا تھا اور اسے جزوی طور پر 1992 میں مولانا صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی کے قیام سے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ یہ تنازعہ 2008-2009 میں عروج پر پہنچا جب مولانا صوفی نے “تور پتکی” (کالی پگڑی) تحریک شروع کی جو کہ شرعی حکم کے فوری نفاذ کا مطالبہ تھا۔

اس کے بعد، مالاکنڈ کے علاقے میں تشدد کے واقعات دیکھنے میں آئے جس نے حکومت کو فوجی دستوں کے ذریعے انسدادِ بغاوت مہم شروع کرنے پر مجبور کیا۔

یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کے سوات میں داخل ہونے کی خبریں کیوں سامنے آرہی ہیں ؟ کیا واقعی اِس کے پیچھے کوئی حقیقت ہے، اس حوالے سے پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے دعویٰ کیا ہے کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت کمزور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اگر سوات میں طالبان کی موجودگی کے حوالے سے خبریں درست ہیں تو یہ پاکستان کیلئے خطرے کی گھنٹی ہوگی۔

Related Posts