مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ٹی آئی کے گم صم سے سربراہ جناب عمران احمد خان نیازی سپورٹس کی دنیا میں پاکستان کے چند روشن تر ستاروں میں سے ایک رہے ہیں۔ سو ان کی بنیادی شناخت ہی سپورٹس کی یہ دنیا ہے۔ یہ عمران خان کا ہی دور کرکٹ تھا جب ماڈلنگ کی بدولت یہ کھیل شوبز کی دنیا کا جزو بنتا چلا گیا۔

خوبرو عمران خان کے پاس صرف کشش ثقل کا وہ جملہ سامان ہی نہ تھا جو جنس مخالف کو کھینچ لیتا ہے بلکہ کھیل کے میدان کی کار کردگی بھی تھی۔ وہ اپنے دور کے دنیا کے ان چار آل راؤنڈرز میں سے تھے جن میں سے ہر ایک کرکٹ کی دنیا کا لیجنڈ شمار ہوا۔ سو جنس مخالف کو ان کی پرکشش شخصیت کھینچ رکھتی تو ہم جنسوں کو ان کی کرکٹ کار کردگی۔ یوں ایک عالم ان کا فین کلب تھا۔ اس فین کلب کے مردان خانے میں وہ “کپتان” کہلاتے تھے جبکہ زنان خانے میں پلے بوائے۔ فین کلب سے ملنے والی بے پناہ محبت کا ہی نتیجہ تھا کہ ان کے فینز میں ایک عظیم آدمی اور بھی شامل ہوگیا۔ اس عظیم آدمی کا نام عمران احمد خان نیازی ہے۔ ایک مدت ہوئی کہ وہ خود بھی اپنے سب سے بڑے فین ہیں۔ اسی کا تو نتیجہ تھا کہ ورلڈکپ کی ایوارڈ تقریب میں انہوں نے ورلڈکپ جیتنا اپنا ذاتی کارنامہ بتا ڈالا، ٹیم اور اس کی کار کردگی کو گول کر گئے۔

اپنے اس فین کلب سے چندہ اکٹھا کرکے انہوں نے کینسر ہسپتال بنانا شروع کیا تو یہ منظر قوم ہی نہیں اسٹیبلیشمنٹ کی بھی توجہ کھینچ گیا۔ وہ جانتے تھے کہ اس قومی ہیرو کے سب سے بڑے فین یہ ہیرو خود ہی ہیں۔ سو یہ بھی جانتے تھے کہ ایسے کو بوتل میں اتارنے کے لئے تھوڑا سا مکھن، تھوڑا سا مسکہ، اور تھوڑی سی خوشامد کافی ہوتی ہے۔ چنانچہ عظیم جنرل حمید گل نے انہیں باور کرانا شروع کردیا کہ سیاستدانوں نے ملک کو تباہ کردیا ہے۔ وقفے وقفے سے تین جرنیلوں نے ان سیاستدانوں کو سبق سکھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ سو اب امید کی واحد کرن آپ کی ہی ذات بابرکات ہے۔ آپ ہی اس قوم کے نجات دہندہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ جب افواج پاکستان کا قادر الکلام ارسطو آپ کو مسکہ لگائے تو آپ یہ تک بھول جاتے ہیں کہ ملک کی تباہی کے ذمہ داروں کا سب سے طاقتور نمائندہ آپ سے مخاطب ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کو بھی اپنے فین کلب سمیت ایندھن بنانے کا فیصلہ ہوچکا۔سنا ہے کہ شروع شروع میں کپتان نے انکار کردیا تھا۔ مگر پھر ایک سانحہ ہوگیا جس نے کپتان کی سوچ بدل ڈالی۔ یہ سانحہ لاہور جم خانہ میں یوں رونما ہوا کہ میاں نواز شریف نے کپتان کو چھکا جڑ دیا۔ کپتان نے اپنے کیریئر میں چھکے درجنوں کیا سینکڑوں کھائے تھے مگر یہ ایک چھکا نہ وہ پہلی رات بھول سکا تھا اور نہ ہی آج تک بھول سکا۔

سو کپتان نے فیصلہ کیا کہ وہ اس چھکے کا بدلہ سیاسی میدان میں لے گا۔ چنانچہ وہ چپکے سے اپنے فین کلب سمیت انٹیلی جنس کور کی میس میں داخل ہوگیا۔ وہاں چھوٹے سے لے کر بڑے تک جو بھی سامنے آیا سب نے خود کو “فین” ہی بتایا۔ یوں کپتان جلد اس نتیجے پر پہنچا کہ پاکستان آرمی بھی اس کے فین کلب کے سوا کچھ نہیں۔ جنرل مشرف اقتدار میں آئے تو کپتان کی باچھیں کھل گئیں۔ وہ سمجھا محمد خان جونیجو بننے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ مگر یہ بھول گیا کہ اگلے اپنے کارڈ ضائع کرنے پر یقین نہیں رکھتے۔ نواز شریف کو تو اس کی مدد کے بغیر ہی وہ چلتا کرچکے تو اقتدار کپتان کو دینا کپتان کو ضائع کرنا ہی ہوتا۔ سو انہیں تب پوری قوت سے میدان میں اتارا گیا جب نواز شریف واپس آگیا اور اسٹیبلیشمنٹ کو آنکھیں دکھانے لگا۔ 2008 میں قائم ہونے والی پیپلز پارٹی کی حکومت کی مدت قریب آنی شروع ہوئی تو سیاسی افق پر نواز شریف کا تیسرا دورِ حکومت نوشتہ تقدیر نظر آنے لگا۔ تب اسٹیبلیشمنٹ کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ منتقم مزاج نواز شریف دو کھاتے ضرور کھولے گا۔ ایک 12 اکتوبر 1999ء کی بغاوت کا کھاتہ اور دوسرا کارگل جنگ کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے کا کھاتہ۔ سو وقت آگیا تھا کہ نواز شریف کو کاؤنٹر کرنے کے لئے کپتان کے جم خانہ کلب والے چھکے پر نمک پاشی شروع کی جاتی۔

اسٹیبلیشمنٹ کے لئے کسی کو سیاسی میدان میں مقبول بنوانا ویسے بھی بائیں ہاتھ کا کھیل ہوتا ہے۔ اس باب میں ان کا لگا بندھا طریقہ واردات یہ ہے کہ مطلوبہ شخصیت کو سرگرم ہونے کا اشارہ کرکے میڈیا سے کہہ دیا جاتا ہے کہ مطلوب کو فل کوریج دی جائے اور اس کی سرگرمیوں کو ٹاک شوز کا حصہ بھی بنایا جائے۔ پھر میڈیا میں ہی موجود اپنے اینکرز، کالم نگار اور میگزین ایڈیٹرز سے ان کے حق میں رائے عامہ ہموار کرنی شروع کردی جاتی ہے، مگر کپتان کے معاملے میں تو اسٹیبلیمشنٹ کو اپنے پورے بائیں ہاتھ کے استعمال کی بھی ضرورت نہ تھی۔ اسے بس کپتان کے فین کلب کو موبلائز کرنے میں مدد فراہم کرنی تھی۔ چنانچہ زندگی کے تمام شعبوں سے رائے عامہ پر اثر رکھنے والی شخصیات کپتان کی “فین” بن کر سامنے آتی چلی گئیں۔ آپ حسن امتزاج دیکھئے کہ اداکار شان فلم انڈسٹری کا سب سے بااثر نام تھا تو فلم انڈسٹری سے وہ فین بن کر سامنے آگئے۔ دینداروں کے حلقے سے طارق جمیل سب سے بااثر تھے تو وہ بھی سال کی جماعت میں ویسٹ انڈیز جانے کی بجائے پانچ سال کی جماعت میں بنی گالہ پہنچ گئے اور ظاہر ہے فین کے طور پر ہی پہنچے۔ زندگی کے باقی شعبوں کا بھی آپ جائزہ لیں گے تو آپ کو ہر شعبے کا سب سے با اثر شخص پچھلے دس بارہ سالوں کے دوران کپتان کے فین کے طور پر سرگرم ہوتا نظر آئے گا۔

اچھے خاصے باشعور لوگ بھی یہ بات نہیں سمجھتے کہ قومی، علاقائی یا کسی طبقے کی سطح پر مقبول ہونے والے ہر شخص پر اداروں کی نظر ہوتی ہے۔ وہ ان سب کا ڈیٹا اکٹھا کرتے جاتے ہیں، اور چپ چاپ انتظار کرتے ہیں ایسے وقت کا جب ان میں سے کسی کی “ملک کے عظیم تر مفاد” میں کوئی ضرورت پیش آجائے۔ یہ پاکستان ہے، ویڈیوز یہاں سب کی ہوتی ہیں۔ سو جس طرح کپتان کی مقبولیت ملک کے عظیم تر مفاد میں استعمال کرنے کا فیصلہ ہوا تھا، بعینہ زندگی کے ان دیگر شعبوں والی شخصیات اور ان کی مقبولیت کو بھی ملک کے عظیم تر مفاد میں خان کے فین کلب کی جانب موڑ دیا گیا تھا۔ ان شخصیات کے بھی تو اپنے نکے نکے فین کلب تھے۔ سو ان کی حمایت سے ان نکے نکے فین کلبوں کو بھی کپتان کے بڑے فین کلب کی سپورٹ میں کھڑا کردیا گیا تھا۔

مگر کپتان سے ایک بڑی غلطی ہوگئی۔ اور وہ یہ کہ وہ یہ سمجھ بیٹھا کہ اسٹیبلیشمنٹ بھی کسی فین کلب کا حصہ ہوسکتی ہے۔ وہ ان طاقتور لوگوں کو بھی اپنے سچے فین سمجھ بیٹھا۔ وہ یہ سمجھتا رہا کہ فارن فنڈنگ کیس کو اس لئے سالوں تک لٹکایا جا رہا ہے کہ لٹکانے والے اس کے فین ہیں۔ جبکہ حقیقت بس اتنی تھی کہ اس کیس کو اسٹیبلیشمنٹ نے اپنے لئے ہی سنبھال رکھا تھا۔ اسٹیبلیشمنٹ جب کسی کو سیڑھی فراہم کرتی ہے تو سیڑھی کھینچنے کا بندوبست ایڈوانس میں رکھتی ہے۔ ان کے لئے کپتان ایک مہرے سے زیادہ کچھ نہ تھا۔ یہ تسلیم کرنا ممکن ہی نہیں کہ فارن فنڈنگ کیس محض کسی شہری کا کیس تھا۔ آپ ٹائمنگ دیکھئے کہ جب مہرہ استعمال کرنے کا وقت قریب آیا تو فارن فنڈنگ کیس کی ہنڈیا بھی چولہے چڑھ گئی۔

اگر اسٹیبلیشمنٹ کپتان کا فین کلب ہوتی اور یہ کیس محض ایک شہری کا کیس ہوتا تو اس شہری سے نمٹنا کونسا مشکل کام تھا ؟ جہاں بڑے بڑے ٹارزن کورونا کے شکار ہوگئے ہوں وہاں اکبر ایس بابر کے لئے تو ڈینگی ہی کافی تھا۔ مگر کمال دیکھئے کہ اس بندے کو “نامعلوم افراد” نے معمولی سا تنگ کیا، نہ سیاہ شیشوں والے ڈالے میں ڈالا، اور نہ ہی اس کے فراہم کردہ ریکارڈ کو آگ لگی۔ سب کچھ عین مطلوبہ رفتار سے چلتا رہا اور عین اس وقت فیصلہ آیا جب اس کی ملک کے وسیع تر مفاد میں ضرورت تھی۔ یہ دھیمی آنچ پر پکی دیگ ہے۔ کھانے والے اس کا ذائقہ مدتوں یاد رکھیں گے۔ اور کھانے والے ایک دوسرے سے کہیں گے، کوئی پوچھے تو کہنا کپتان پکا ہے۔ اگر جوتے کا نام کپتان ہوسکتا ہے تو ڈش کا نام کیوں نہیں ؟ اس دعوت شیراز کے بعد ہم اداکار شان کو ایک بار پھر فلم انڈسٹری پر فوکس ہوتا دیکھیں گے۔ جبکہ حضرت طارق جمیل بھی ہمیں شایدایک بار پھر چار بر اعظم گھومتے نظر آئیں۔ چار بر اعظم نہ بھی گھوم سکے تو ناڑے کی تجارت بھی کوئی معمولی کام تو نہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ ناڑہ بھی برینڈ بن سکتا ہے۔ یہ سب کپتان کے فین کلب کی برکت ہے جہاں رند نے صدیوں سے عطر و تسبیح کی تجارت سے جڑے شیخ کو ناڑہ فروشی سکھادی !

Related Posts