عراق کے تاریخی شہر بغداد سے 100 کلومیٹر جنوب مغرب میں صوبہ کربلا میں واقع صحرائے کربلا جسے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اور جانثاران کی شہادتوں کی نسبت سے کرب و بلا بھی کہا جاتا ہے۔ آج بھی اتنا ہی اہم سمجھا جاتا ہے جتنا کبھی ماضی میں تھا۔
حضرت حسین ابنِ علی رضی اللہ عنہ کے روضے کی وجہ سے مشہور یہ تاریخی مقام ماضی میں نینوا اور الغادریہ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ یہاں 10 لاکھ کے قریب نفوس بستے ہیں تاہم محرم اور صفر کے مہینوں میں یہاں زائرین بے شمار تعداد میں آتے ہیں اور مقدس مقامات کی زیارت کرتے ہیں۔
مارچ 1991 میں امریکی حملوں کے نتیجے میں مزارِ امام حسین رضی اللہ عنہ سمیت کئی مذہبی عمارات کو نقصان پہنچا جس کی وجہ سے 1994 میں مزارِ امامِ عالی مقام کی تعمیرِ نو کردی گئی۔ ریگستانی علاقہ ہونے کے باعث کربلا میں گرمی اور سردی دونوں ہی موسم شدید نوعیت کے ہوتے ہیں۔
اپنے 72 جانثاروں کو ساتھ لے کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ 61 ھجری بمطابق 680 عیسوی میں کربلا کے میدان میں اترے تو دوسرے ہی روز عمر بن سعد 6000سپاہی لے کر کربلا پہنچ گیا اور اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کیلئے آپ کے خلاف تلوار اٹھا لی جو 9 محرم الحرام کا دن تھا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ یزید کی بیعت کیلئے تیار نہ ہوئے اور فرمایا کہ جو لوگ جانا چاہتے ہیں، انہیں میری طرف سے اجازت ہے۔ کچھ جانثار اور اعزاء نے آخری وقت تک ساتھ دینے کا عہد کیا جن کی تعداد 72 بتائی جاتی ہے۔
آپ نے شہادت سے قبل تقریر بھی کی اور فرمایا کہ لوگو! میرے حسب و نسب پر غور کرو اور دیکھو کہ میں کون ہوں۔ اپنے آپ کو ملامت کرو۔ کیا تمہیں میرا قتل اور توہین زیب دیتی ہے؟ کیا میں تمہارے نبی ﷺ کا نواسہ اور ان کے چچا زاد بھائی کا بیٹا نہیں جنہوں نے سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہا اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لائے؟
حر نے آپ کی تقریر کا اثر لیتے ہوئے کہا کہ میں نے جنت کا انتخاب کیا چاہے مجھے ٹکڑے ٹکڑے کردیا جائے یا جلا دیا جائے۔ شخصی مبازرت کے طریقے سے جنگ کا آغاز ہوا جس میں اہلَِ بیت کا پلڑا بھاری تھا۔
ابنِ سعد نے یہ دیکھتے ہی عام حملے کا حکم دے دیا۔ فدائی ایک ایک کرکے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ پر قربان ہوتے رہے تاہم میدانِ جنگ سے پلٹ کر کوئی بھاگا نہیں۔ علی اکبر، عبداللہ بن مسلمہ، جعفر بن طیار کے پوتے عدی، عبدالرحمان، قاسم، ابوبکر سمیت سب شہداء کے لاشے اٹھائے گئے۔
تیر لگنے سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ گر گئے۔ شمر ذی الجوشن کی شکل دیکھتے ہی آپ نے فرمایا کہ میرے نانا اور رسولِ خدا ﷺ نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک دھبے دار کتے کو دیکھتا ہوں کہ میرے اہلِ بیت کے خون سے ہاتھ رنگتا ہے۔
شمر نے عقبی سمت سے آپ کا سر تن سے جدا کردیا۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت یحییٰ بن زکریا علیہ السلام کا سر بھی اسی طرح عقبی سمت سے کاٹا گیا تھا۔ آپ کے سر بریدہ جسم پر گھوڑے دوڑا دئیے گئے جس کا حکم ابنِ زیاد نے دیا تھا۔ شہدائے اہلِ بیت کے سر نیزوں کی نوک پر رکھ کر ابنِ زیاد کے دربار میں اور پھر دمشق میں یزید کے سامنے لائے گئے۔
یزید نے امام حسین کے سر کو طشت پر رکھ کر دندانِ مبارک کو چھڑی سے چھیڑا اور کچھ شعر پڑھے جس پر دربار میں موجود یہودی سفیر کا کہنا تھا کہ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی اولاد سے ہوں۔ 70 پشتیں گزرنے کے باوجود یہودی میری بڑی عزت کرتے ہیں اور ایک تم ہو کہ تم نے اپنے نبی کے نواسے کو شہید کیا اور اس پر فخر کرتے ہو۔ یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے۔