اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے جمعہ کو کہا کہ اگر قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم ”عوام کے بنیادی حقوق سے متصادم” ہیں تو سپریم کورٹ مداخلت کرے گی اور معاملے کا جائزہ لے گی۔ سپریم کورٹ نے احتساب کے نگراں ادارے کو بھی اس معاملے پر اپنا جواب جمع کرانے کی ہدایت کی۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ نے نیب قانون میں ترامیم کے خلاف سابق وزیراعظم عمران خان کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے بتایا کہ ایڈووکیٹ مخدوم علی خان کو اس مقدمے میں وفاقی حکومت کے وکیل کے طور پر نامزد کیا گیا تھا، جنہیں اپنے دلائل دینے کی اجازت دی گئی تھی۔
سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل نے عدالت کے روبرو موقف اختیار کیا کہ ترامیم کے بعد آمدن سے زائد اثاثے رکھنے اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے تمام کیسز خارج کر دیے جائیں گے۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ نہ تو بار کونسلز اور نہ ہی سول سوسائٹی نے نیب قانون میں ترامیم پر کوئی اعتراض اٹھایا۔ جس پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد بار کونسل نے ترامیم کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
دلائل کا جواب دیتے ہوئے جسٹس شاہ نے کہا کہ اگر اپوزیشن کو نیب قانون میں ترامیم سے مسئلہ ہے تو وہ قومی اسمبلی میں بل پاس کرائیں۔ پارلیمنٹ کے کردار کو اہم قرار دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے تو اس کا احترام کرنا چاہیے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت یہ نہیں دیکھ رہی کہ یہ قانون کس نے متعارف کرایا، لیکن کیا اس سے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ریمارکس دیئے کہ عوام کا پیسہ کرپشن میں استعمال ہوا تو عوام کے بنیادی حقوق پامال ہوئے، عدالت معاملہ دیکھ سکتی ہے۔
جج کو جواب دیتے ہوئے حکومتی وکیل نے روشنی ڈالی کہ کس طرح عمران خان نے آرڈیننس کے ذریعے وہی ترامیم کیں۔ مخدوم نے سوال کیا کہ اگر وہ ماضی میں اس پر متفق تھے تو اب اس کی مخالفت کیوں کر رہے ہیں۔ صدر کا وزیراعظم کو خط پٹیشن کا حصہ کیسے بنا؟
مزید پڑھیں:سوشل میڈیا پر توہین آمیز مہم نا قابل قبول ہے، آئی ایس پی آر